صفحات

پیر، 22 فروری، 2016

157۔ یہ کیسی ہےتقدیر جو مٹتے نہیں مٹتی

کلام محمود صفحہ222

157۔ یہ کیسی ہےتقدیر جو مٹتے نہیں مٹتی


نوٹ: اُردو میں عام طورپر مٹائےنہیں مٹتی، بولا جاتا ہے اور وہاں یہ مراد ہوتا ہے کہ انسان مٹانا چاہتا ہے مگر نشان نہیں مٹتا۔ اس کے برخلاف ایک نقش ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خود اسے مٹانا نہیں چاہتا لیکن مرورِ زمانہ سے وہ کمزور پڑ جاتا ہے، چونکہ میں نے اسی مضمون کو لیا ہے۔اس لیے بجائے "مٹائے نہیں مٹتی" کے "مٹتےنہیں مٹتی" استعمال کیا ہے۔ جاہل ادیبوں کے نزدیک یہ بات ناجائز تصرف معلوم ہو گا، مگر واقفوں کے نزدیک مفید اضافہ۔مرزامحموداحمد (28جولائی1951ء)

یہ کیسی ہےتقدیر جو مٹتے نہیں مٹتی
پتھر کی ہے تحریر جو مٹتے نہیں مٹتی

سب اور تصور تو مرے دل سے مٹے ہیں
ہے اک تری تصویر جو مٹتے نہیں مٹتی

اب تک ہے مرے قلب کے ہر گوشہ میں موجود
اُن لفظوں کی تاثیر جو مٹتے نہیں مٹتی

کس زور سے کعبہ میں کہی تم نے مری جاں
اک گونجتی تکبیر جو مٹتے نہیں مٹتی

انسان کی تدبیر پہ غالب ہے ہمیشہ
اللہ کی تدبیر جو مٹتے نہیں مٹتی

ڈلہوزی و شملہ کی تو ہے یاد ہوئی محو
ہے خواہشِ کشمیر جو مٹتے نہیں مٹتی

اسلام کو ہے نور ملا نورِ خدا سے
ہے ایسی یہ تنویر جو مٹتے نہیں مٹتی

کُن کہہ کے نیا باب بلاغت کا ہے کھولا
ہے چھوٹی سی تقریر جو مٹتے نہیں مٹتی

اخبار الفضل جلد 5۔ 31 جولائی 1951ء۔ لاہور پاکستان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں