صفحات

بدھ، 17 فروری، 2016

171۔ دنیا میں یہ کیا فتنہ اٹھا ہے مرے پیارے

کلام محمود صفحہ236

171۔ دنیا میں یہ کیا فتنہ اٹھا ہے مرے پیارے


دنیا میں یہ کیا فتنہ اٹھا ہے مرے پیارے
ہر آنکھ کے اند رسے نکلتے ہیں شرارے

یہ منہ ہیں کہ آہنگروں کی دھونکنیاں ہیں
دل سینوں میں ہیں یا کہ سپیروں کے پٹارے

راتیں تو ہوا کرتی ہیں راتیں ہی ہمیشہ
پر ہم کو نظر آتے ہیں اب دن کو بھی تارے

ہے امن کا داروغہ بنایا جنھیں تو نے
خود کررہے ہیں فتنوں کو آنکھوں سے اشارے

اسلام کے شیدائی ہیں خونریزی پہ مائل
ہاتھوں میں جو خنجر ہیں تو پہلو میں کٹارے

سچ بیٹھا ہے اک کونہ میں منہ اپنا جھکا کر
اور جھوٹ کے اڑتے ہیں فضاؤں میں غبارے

ظلم و ستم و جور بڑھے جاتے ہیں حد سے
ان لوگوں کو اب تو ہی سنوارے تو سنوارے

طوفان کے بعد اٹھتے چلے آتے ہیں طوفاں
لگنے نہیں آتی ہے مری کشتی کنارے

گر زندگی دینی ہے تو دے ہاتھ سے اپنے
کیا جینا ہے یہ جیتے ہیں غیروں کے سہارے

اخبار الفضل جلد 6۔ 5اگست  1952ء۔ لاہور ۔ پاکستان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں