صفحات

اتوار، 3 اپریل، 2016

8۔ آ رہے ہیں مری بگڑی کے بنانے والے

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ19۔22

آ رہے ہیں مری بگڑی کے بنانے والے


اے مجھے اپنا پرستار بنانے والے
جوت اک پریت کی ہردے میں جگانے والے

سرمدی پریم کی آشاؤں کو دھیرے دھیرے
مدھ بھرے سر میں مدھر گیت سنانے والے

اے محبت کے امر دیپ جلانے والے
پیار کرنے کی مجھے ریت سکھانے والے

غمِ فرقت میں کبھی اتنا رلانے والے
کبھی دلداری کے جھولوں میں جھلانے والے

دیکھ کر دل کو نکلتا ہوا ہاتھوں سے کبھی
رس بھری لوریاں دے دے کے سلانے والے

کیا ادا ہے مرے خالق ، مرے مالک، مرے گھر
چھپ کے چوروں کی طرح رات کو آنے والے

راہ گیروں کے بسیروں میں ٹھکانا کر کے
بے ٹھکانوں کو بنا ڈالا ٹھکانے والے

مجھ سے بڑھ کر مری بخشش کے بہانوں کی تلاش
کس نے دیکھے تھے کبھی ایسے بہانے والے

تو تو ایسا نہیں محبوب کوئی اور ہوں گے
وہ جو کہلاتے ہیں دل توڑ کے جانے والے

تو تو ہر بار سر رہ سے پلٹ آتا ہے
دل میں ہر سمت سے پل پل مرے آنے والے

مجھ سے بھی تو کبھی کہہ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّہ
روح بیتاب ہے روحوں کو بلانے والے

اِس طرف بھی ہو کبھی ، کاشفِ اَسرار م، نگاہ
ہم بھی ہیں ایک تمنا کے چھپانے والے

اے مرے درد کو سینے میں بسانے والے
اپنی پلکوں پہ مرے اشک سجانے والے

خاک آلودہ ، پراگندہ ، زبوں حالوں کو
کھینچ کر قدموں سے زانو پہ بٹھانے والے

میں کہاں اور کہاں حرف شکایت آقا!
ہاں یونہی ہول سے اٹھتے ہیں ستانے والے

ہو اجازت تو ترے پاؤں پہ سر رکھ کے کہوں
کیا ہوئے دن تیری غیرت کے دکھانے والے

یہ نہ ہو روتے ہی رہ جائیں ترے در کے فقیر
اور ہنس ہنس کے روانہ ہوں رلانے والے

ہم نہ ہوں گے تو ہمیں کیا؟ کوئی کل کیا دیکھے
آج دکھلا جو دکھانا ہے دکھانے والے

وقت ہے وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت
کون ہیں یہ تری تحریر مٹانے والے

چھین لے ان سے زمانے کی عناں ، مالک وقت
بنے پھرتے ہیں کم اوقات ، زمانے والے

چشم گردوں نے کبھی پھر نہیں دیکھے وہ لوگ
آئے پہلے بھی تو تھے آ کے نہ جانے والے

سن رہا ہوں قدمِ مالکِ تقدیر کی چاپ
آ رہے ہیں مری بگڑی کے بنانے والے

کرو تیاری ! بس اب آئی تمہاری باری
یوں ہی ایام پھرا کرتے ہیں باری باری

ہم نے تو صبر و توکل سے گزاری باری
ہاں مگر تم پہ بہت ہو گی یہ بھاری باری

جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٤ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں