صفحات

منگل، 31 مئی، 2016

115۔ اسیران کی رہائی

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ341۔343

115۔ اسیران کی رہائی


جب ملی تم کو رہائی کی خبر کیسا لگا؟
لے کے پروانہ جو آیا نامہ بَر کیسا لگا؟
ملنا پھر احباب کا باچشمِ تر کیسا لگا؟
دیکھ کر اپنے مکاں کے بام و در کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

کتنے گھاؤ کھائے ہیں کتنی مداراتیں ہوئیں
دَورِ تنہائی میں کتنی یار سے باتیں ہوئیں
جب کسک پیدا ہوئی کتنی مناجاتیں ہوئیں
سوزِ دل کیسا لگا، سوزِ جگر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

امتحاں کا وقت، دورِ ابتلاء کیسا لگا؟
عشق کی منزل کا یہ جادہ نیا کیسا لگا؟
یہ وفاؤں کی بقا کا مرحلہ کیسا لگا؟
کچھ کہو اہلِ وفا، اہلِ نظر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

قربتیں کیسی لگیں اور فاصلے کیسے لگے؟
جن میں الجھائے گئے وہ مسئلے کیسے لگے؟
کرب اور تسکین کے یہ سلسلے کیسے لگے؟
جو پسِ زنداں کیا کسبِ ہنر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

جو سلاسل میں کٹی وہ زندگی کیسی لگی؟
بِندی خانے میں خدا کی بندگی کیسی لگی؟
تیرگی میں روح کی تابندگی کیسی لگی
جو وہاں دیکھا ہے وہ رنگِ بشر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

مُضطرب ہو کے جو اُٹھی تھی صدائے اہلِ دل
درد کا درماں بنی وہ التجائے اہلِ دل
اے خوشا کہ رنگ لے آئی دعائے اہلِ دل
لَوٹ کے آنا یہاں بارِ دِگر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

یوں قفس کی تیلیوں کا ٹوٹنا کیسا لگا؟
بندِ آہن سے یکایک چھوٹنا کیسا لگا؟
صبح کا جلوہ، یہ پَو کا پھوٹنا کیسا لگا؟
چاندنی کیسی لگی، نورِ سحر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

یہ زمیں کیسی لگی، یہ آسماں کیسا لگا؟
سانس آزادی کی لی تو یہ جہاں کیسا لگا؟
طے ہوئی جو یہ مسافت، آشیاں کیسا لگا؟
جس سے تم بچھڑے رہے وہ ہمسفر کیسا لگا؟
اتنی مدّت بعد آئے ہو تو گھر کیسا لگا؟

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں