صفحات

بدھ، 25 مئی، 2016

14۔ خلاصہ خطبہ عیدالاضحیٰ

بخار دل صفحہ56۔57

14۔ خلاصہ خطبہ عیدالاضحیٰ


1924ء میں جبکہ حضورخلیفۃ المسیح ولایت تشریف لئے گئے تھے تو قادیان میں عیدالاضحی کاخطبہ حضرت مولوی شیرعلی صاحب نے پڑھا تھا۔ یہ اشعار اُس خطبے کے ہیں جو میر صاحب نے بطور خطبہ کے خلاصہ کے تحریر فرمائے تھے۔

ایکہ داری عزمِ تائیداتِ دیں
یاد رکھ اس بات کو تُو بالیقیں

کوئی قُربانی بجز تقویٰ نہیں
اور بِلا قُربانی کچھ مِلتا نہیں

بے مَحبت جُملہ قُربانی فُضول
مُتَّقی کی صرف ہوتی ہے قَبول

اِمتحانِ عشق ہیں قُربانیاں
پر وہی جن میں ہو تقویٰ کا نِشاں

متقی اللہ کا محبوب ہے
اس کا تھوڑا بھی بہت مرغُوب ہے

ہر عمل میں اپنے اے جانِ پدر
لَنْ یَّنالَ اللّٰہ پر رکھیو نظر

گوشت کا اور خون کا ہے کام کیا
یاں تو بس تقویٰ سے حاصل ہو رضا

تو وفا کو سیکھ ابراہیمؑ سے
جس نے بیٹا رکھ دیا خنجر تلے

عشق کے کوچے کا ہے پہلا سوال
''لائیے ناموس و عزّت جان و مال''

گر ذرا بھی ہو تأمُّل سے جواب
مُدَّعی کا ہو گیا خانہ خراب

عشق و تقویٰ کا نہ تھا باقی نِشاں
لائے اُن کو احمدؑ آخِر زَماں

گر تجھے ہے چاشنی اس راہ کی
داخلِ حزبِ خدا ہو جا ابھی

چاہتا ہے قُرب گر، قُربان ہو
تاکہ تو حیوان سے اِنسان ہو

چند چند از حکمتِ یونانیاں؟
حکمتِ ایمانیاں را ہم بخواں

الفضل 31جولائی 1924ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں