صفحات

منگل، 17 مئی، 2016

51۔ اپنارنگ

بخار دل صفحہ133۔134

51۔ اپنارنگ


پہلے مِرے کلام میں تھا عاشِقانہ رنگ
پر اب بَدَل کے ہو گیاکچھ ناصِحانہ رنگ

یعنی بنا شراب سے مِکسچر کونین کا
ساقی پہ یا چڑھا ہے نیا واعظانہ رنگ

ِپِیری کے اور شباب کے گُل تو کھِلا چکے
جنّت میں اے خدا! مجھے دے والہانہ رنگ

صوفی وہ ہے کہ علم بھی ہو اور خِرَد بھی ساتھ
کچھ زاہِدانہ رنگ ہو کچھ عاقِلانہ رنگ

عادت تھی اِک گُناہ کی ۔ دِل ہو گیا سیاہ
صابونِ توبہ خوب مَلا پر گیا نہ رنگ

اے نُورِ مَغفِرَت! تِرے قُربان جائیے
تو نے کیا وہ صاف جو ہم سے چُھٹا نہ رنگ

'خنساؔ' کا کچھ سُنا تھا مگر وہ بھی دنگ ہو
''نُصرت جہاں'' کا دیکھے اگر خواہِرانہ رنگ1؎

جو ''معجزات سُنتے ہو، قِصوں کے رنگ میں''
زندہ یقیں کا اُن سے ہو پیدا ذرا نہ رنگ

دُنیا کے ناچ رنگ تو سب رنگ میں ہیں بھنگ
خوش رنگ سب میں رنگ ہے بس مومِنانہ رنگ

یک رنگ باصفا ہو مِری جاں ۔کہ خوب تر
قوسِ قُزَح کے رنگ سے ہے صُوفیانہ رنگ

بے رنگ و شکل جسم و مکاں تیری ذات تھی
پر جلوۂ صفات سے کیا کیا کھلا نہ رنگ

جبروت سے تمہاری نکلتا ہے دم یونہی
پھر کیوں مجھے دکھاتے ہو یہ قاہِرانہ رنگ

رنگ خودی جو چھوڑا تو ہمرنگِ حق بنے
تیرا چڑھا ہے رنگ ۔جب اپنا رہا یہ رنگ

بہتر ہے ہر ادا سے تِری رحم کی ادا
ہر رنگ سے ہے خوب مِرا عاجِزانہ رنگ

یہ جبر و اختیار کے جھگڑے فُضول ہیں
عالَم پہ چھا رہا ہے تِرا مالِکانہ رنگ

رنگت کو اپنی تجھ سے مِلایا کئے مُدام
افسوس تیرے رنگ سے پر مِل سکا نہ رنگ

یا ربّ! دکھا دے فَضل سے رنگینئ جمال
کچھ دِلبرانہ حُسن ۔ تو کچھ مُحسِنانہ رنگ

جب دِل عطا کیا ہے تو کر رنگ بھی نصیب
رچ جائے جان و دِل میں مِرے عارِفانہ رنگ

1؎ خنساء حضرت عمرؓ کے زمانہ کی ایک عرب خاتون تھیں جنہوں نے اپنے بھائیوں کے پُر اثر مرثیے لکھ کر اُن کو عربی بولنے والی قوموں میں زندہ جاوید بنا دیا ہے لیکن حضرت امّاں جان نصرت جہان کا تعلق اُن کے بھائیوں کے نام کو آئندہ زمانہ میں عرب اور عجم میں تاقیامت زندہ رکھے گا۔ انشاء اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں