صفحات

منگل، 17 مئی، 2016

53۔ ہونہیں سکتا

بخار دل صفحہ136۔137

53۔ ہونہیں سکتا


''علاج دردِ دِل تُم سے مسیحا1؎ ہو نہیں سکتا
تُم اچھا کر نہیں سکتے، میں اچھا ہو نہیں سکتا''

مرض پیدا کیاجس نے وہی اپنا معالج ہے
نظر وہ لُطف کی کر دے، تو پھر کیا ہو نہیں سکتا؟

''نہیں محصور ہرگز راستہ قُدرت نُمائی کا''
نہ کہہ سکتاہے یہ کوئی کہ ''ایسا ہو نہیں سکتا''

خدا سے عشق کو مانگا کرو دائم کہ یہ نعمت
سماوی نُور ہے دُنیا میں پیدا ہو نہیں سکتا

کرم فرماؤ ۔ آ جاؤ تُم ہی اس خانۂ دِل میں
کہ قبل از مرگ واں آنا ہمارا ہو نہیں سکتا

رَقیبوں کی نہ ہو محفل تو جی اپنا نہیں لگتا
کہ جو تیرا نہ ہو جاناں، وہ میرا ہو نہیں سکتا

جو خود کو عبد کہتا ہو فقط منہ سے وہ کاذِب ہے
نہ ہو قُربان جو اُس پر وہ بندہ ہو نہیں سکتا

عجب لذّت ہے نیکی میں عجب شیرینی تقویٰ میں
کہ ان کا کوئی بھی پہلو ہو، پھیکا ہو نہیں سکتا

یہ مرضی اُس کی اپنی ہے - نظر گر مِہر کی کر دے
کہ دِلبر سے مَحبت کا تقاضا ہو نہیں سکتا

ارے عیسائیو! اَب2؎ کی جگہ تُم رَبّ کہو اس کو
نہ ہو امّاں کا جو شوہر وہ ابّا ہو نہیں سکتا

نِشانوں کو بھی دیکھے پر نہ مانے احمدیت کو
مُخالِف اس قدر کوئی بھی اَندھا ہو نہیں سکتا

بنی فارس کے آگے، آپ ہیں کس باغ کی مُولی
سوا محمودؔ کے کوئی خلیفہ ہو نہیں سکتا

شقی اَزَلی نہیں بنتا سعید اے دوست کوشش سے
جو سہ شنبہ3؎ ہے وہ ہر گز دو شنبہ4؎ ہو نہیں سکتا

نہیں جائز، زُباں کھولے تُو کُنہِ ذاتِ باری میں
خدا کیسا ہے؟ کیا ہے؟ کیوں وہ ایسا ہو نہیں سکتا؟

اَنَاالمَوجُود سے اپنا پتہ دیتا ہے خود مولیٰ
خدا وہ ہو نہیں سکتا، جو ''خود آ'' ہو نہیں سکتا

ذرا سی پُھونک، کر دیتی ہے مَیلا شیشۂ دِل کو
پر اِستِغفار دائم ہو، تو دُھندلا ہو نہیں سکتا

کرو تبلیغ، دو چندے، دُعا ہو غلبۂ دیں کی
کہ احمدؐ کا سپاہی تو نِکمّا ہو نہیں سکتا

الٰہی! فضل کر، تا احمدیت کی ترقی ہو
بغیر اس کے اندھیرا ہے، گزارا ہو نہیں سکتا

1؎ یہاں مسیحا سے مراد طبیبِ حاذق ہے یعنی جسمانی طبیب        2؎ اَب بمعنی باپ۔                   3؎ سہ شنبہ یعنی منگل کا دن، مراد منحوس آدمی اور وہ انسان جو ''مبارک دو شنبہ'' یعنی مصلح موعود کا مقابلہ کرتا ہے۔          4؎ دو شنبہ یعنی ''مبارک دو شنبہ'' اس سے مصلح موعود مراد ہے یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الثانی۔

الفضل 9مارچ 1943ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں