صفحات

ہفتہ، 14 مئی، 2016

68۔ کچھ دُعاکے متعلق

بخار دل صفحہ180۔182

68۔ کچھ دُعاکے متعلق


دُعائیں چھ (6) طرح قبول ہوتی ہیں اور اس طرح کوئی دُعا بھی ضائع نہیں جاتی (1) یا تو وہ لفظاً یہیں قبول ہو جاتی ہے (2) یا اُس کی جگہ آخرت کا درجہ اور نعمت مل جاتی ہے (3) یا اتنی ہی مقدار میں کوئی بُری تقدیر دُور ہو جاتی ہے (4) یا بطور عبادت محسوب ہو جاتی ہے (5) یا دُنیا ہی میں ایک کی جگہ دوسری بہتر چیز مل جاتی ہے (6) یا اگر وہ دُعا بندہ کے لئے مُضر ہو تو منسوخ کر دی جاتی ہے۔ یہ نامنظوری بھی اجابت اور رحمت کا رنگ رکھتی ہے یعنی بندہ ضرر اور تکلیف سے بچ جاتا ہے۔

ہمارا فرض ہے کرنا دُعا کا
پھر آگے چاہے وہ مانے نہ مانے

اگر مانے، کَرم اُس کا ہے ورنہ
وہ جانے اور اُس کا کام جانے

خدا ہے غیب داں اور جانتا ہے
کہ کیا ہیں نعمتیں کیا تازیانے

مگر انساں کہ دارد علمِ ناقص
نمی دانَد مَفادش از زِیانے

اگر ہر اِک دُعا لفظاً ہو مَقبول
لگیں پھر مُدَّعی تو دندنانے

ملے داعی کو کُنجی خیر و شر کی
خدائی سونپ دی گویا خدا نے

بنے جنّت یہی دنیائے فانی
لگیں دشمن، مخالِف سب ٹھکانے

جو احمق ہے سمجھتا ہے کہ واہ وا
لگیں گے اب تو ہم موجیں اُڑانے

ملے گا جو بھی مانگیں گے، دعا سے
یہ راہِ عیش کھولی ہے قضا نے

مگر ہر گز نہ ہو گا کامراں وہ
لگے گا جو خدا کو آزمانے

دعائیں گو سب ہی ہوتی ہیں منظور
یہ فرمایا حُضورِ مصطفیؐ نے

مگر مل جائے جو مانگا ہے تو نے
نہیں ٹھیکا لیا اس کا خدا نے

کبھی ملتا ہے دنیا میں جو مانگو
کبھی عُقبیٰ کے کُھلتے ہیں خزانے

کبھی کوئی مصیبت دُور ہو کر
بدل جاتے ہیں تلخی کے زمانے

عِبادت بن کے رہ جاتی ہیں اکثر
خُدا اور اُس کے بندے کو ملانے

کبھی مقصد بدل جاتا ہے مثلاً
بجائے زَر۔ پسر بھیجا خدا نے

فراخی کی جگہ ملتی ہے عِزَّت
خطابوں کی جگہ آتے ہیں دانے

مکاں بنتا نہیں ۔پر عُمر بڑھ کر
بھرے جاتے ہیں عملوں کے خزانے

مگر نُقصان دِہ جو ہوں دعائیں
کَرَم اُس کا ہے گر اُن کو نہ مانے

نہیں محروم اُس درگاہ سے کوئی
کہ بخشِش کے ہزاروں ہیں بہانے

غرض یہ ہیں اَجابت کے طریقے
قَبولیت کے ہیں سب کارخانے

نہیں آساں مگر کرنا دعا کا
چنے لوہے کے پڑتے ہیں چبانے

دعا کرنا ہے خونِ دِل کا پینا
زبانی لفظ تو ہیں بس بہانے

نہ جب تک متقی بن جاؤ پورے
قَبولیت کے ہیں دعوے، فسانے

عِبادت، بلکہ ہے مغزِ عِبادت
دُعا کی گر حقیقت کوئی جانے

توجہ ہو، تَضَرُّع ہو، یقیں ہو
سَحَر ہو اور تہِ دِل کے ترانے

قضا کو ٹال دیتی ہیں دُعائیں
اگر لگ جائیں پَے در پَے نِشانے

قَبولیت کے قِصّے کیا سناؤں
دکھائے تھے ہمیں جو میرزاؔ نے

خدا سے مانگ لائی ایک محمودؔ
کِیا یہ کام احمدؔ کی دُعا نے

نِشاں جتنے دکھائے اُس نے ہم کو
وہ اکثر تھے دُعا کے شاخسانے

قسم حق کی نظر آیا وہ جلوہ
کہ بس دکھلا دیا چہرہ خدا نے

کروں تعریف میں کیونکر دُعا کی
کہ ہست اُو بر وُجودِ حق نِشانے

اگر ہر موئے مَن گردَدزُبانے
بدُد رانم زِ ہر یک داستانے

خداوندا! مِری بھی اِک دُعا ہے
کہ جس کو مانگتے گزرے زمانے

رضا تیری ہمیں حاصل ہو دائم
رضا ہی کے تو ہیں سب کارخانے

حیاتِ طیّبہ دونوں جہاں میں
خدا خوش ہو موافِق ہوں زمانے

آمین

الفضل 18جون 1943ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں