صفحات

جمعرات، 23 جون، 2016

22۔ نظریں فلک کی جانب ہیں خاک پر جبیں ہے

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ98۔101

22۔ نظریں فلک کی جانب ہیں خاک پر جبیں ہے


ہر ایک ہے ہراساں یہ دَور نکتہ چیں ہے
ہر دل میں ہے تکدّر، آلودہ ہر جبیں ہے
ناپختہ ہر عمل ہے، لرزیدہ ہر یقیں ہے
وصلِ صنم کا خواہاں شاید کوئی نہیں ہے
''فکروں سے دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے
جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے ''

آنکھوں میں سیلِ گریہ، سینہ دھواں دھواں ہے
ہر نفس مضطرب ہے ہر آنکھ خونچکاں ہے
ہونٹوں پہ مسکراہٹ، دل مہبطِ فغاں ہے
فُرقت میں یاں تڑپتا انبوہِ عاشقاں ہے
غربت میں واں پریشاں اک دِلرُبا حسیں ہے
''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے ''

اک دَورِ پُر سکوں کا آغاز چاہتی ہوں
لَے ہو طرب کی جس میں وہ ساز چاہتی ہوں
نظرِ کرم ہی میرے دمساز چاہتی ہوں
میں تیرے لفظ کُن کا اعجاز چاہتی ہوں
سب کی ہے تو ہی سنتا اِس بات کا یقیں ہے
''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے''

انسانی لغزشوں سے میں ماورا نہیں ہوں
ماحول سے علیحدہ ربُ الوریٰ نہیں ہوں
لیکن میں تجھ سے غافل میرے خدا نہیں ہوں
میں بے عمل ہوں بےشک پر بے وفا نہیں ہوں
نظریں بھٹک رہی ہیںپر دل میں   مکیں ہے
''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے''

میں مانتی ہوں میرا خالی ہے آبگینہ
نہ آہِ صبح گاہی نہ زارئ شبینہ
تسلیم کا سلیقہ نہ پیار کا قرینہ
پر میری جان میرا شق ہو رہا ہے سینہ
اب اس میں تابِ فکر و رنج و محن نہیں ہے
''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے ''

بے چین ہو کے کوئی دن رات رو رہا ہے
وہ اپنی سجدہ گاہیں ہر دم بھگو رہا ہے
دامانِ صاف اپنے اشکوں سے دھو رہا ہے
تو جانتا ہے سب کچھ یاں جو بھی ہو رہا ہے
ہے روح بھی فسردہ دل بھی بہت حزیں ہے
''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے''

کرب و بلا کے لمحے بڑھتے ہی جا رہے ہیں
سوز و گداز میرا سینہ جلا رہے ہیں
یہ ناگ وسوسوں کے پل پل ڈرا رہے ہیں
سب صبر و ضبط میرا کیوں آزما رہے ہیں
کچھ اس کا بھی تدارک تُو ربِّ عالمیں ہے
''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے ''

ذوقِ دعا کو میرے رنگِ ثبات دے دے
جامِ لِقا پلا دے، آبِ حیات دے دے
یہ تو نہیں میں کہتی کُل کائنات دے دے
فرقت کی تلخیوں سے بس تو نجات دے دے
نظریں فلک کی جانب ہیں خاک پر جبیں ہے
''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے ''

تیرہ شبی ہے ابرِ اوہام بھی گھنیرا
لیکن یقیں ہے مجھ کو نزدیک ہے سویرا
نادم بہت ہوں لب پہ آیا گِلا جو تیرا
تو نے تو ہر کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا
تو رحمتِ اتم ہے ستّار مذنبیں ہے
''جو صبر کی تھی طاقت وہ مجھ میں اب نہیں ہے ''

تضمین بر مصرع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں