صفحات

اتوار، 19 جون، 2016

38۔ میرے ابّا

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ144۔147

38۔ میرے ابّا


دُعا کے کوئی جال یاں بُن رہا تھا
کوئی پُھول اُمید کے چُن رہا تھا
''زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
تمہیں سوگئے داستاں کہتے کہتے''
ابھی تُم سے سننی تھیں چاہت کی باتیں
مسیحِ زماں سے محبت کی باتیں
خِلافت سے گہری عقیدت کی باتیں
خُدا کی، خُدا کی جماعت کی باتیں
اخوّت کے قِصّے مروّت کی باتیں
اسیری کی، ذوقِ شہادت کی باتیں

ابھی تم سے کرنی تھیں کتنی ہی باتیں

ابھی کتنے قصّے سنانے تھے تم کو
ابھی راز کتنے بتانے تھے تم کو
ابھی کتنے خاکے دکھانے تھے تم کو
لطائف بہت سے سنانے تھے تم کو

مجھے یاد آتی ہیں ماضی کی باتیں

کبھی اپنی بانہوں میں جُھولا جھلایا
کبھی پیار سے ساتھ اپنے لگایا
کبھی دے کے تھپکی مجھے دی تسلّی
کبھی مسکرا کے مرا دل بڑھایا
تمہی میری ڈھارس بندھاتے رہے ہو
تمہی ناز میرے اُٹھاتے رہے ہو
تمہی مان میرا بڑھاتے رہے ہو
کبھی مجھ سے سنتے رہے داستانیں
کبھی اپنی باتیں سناتے رہے ہو

مجھے یاد آتی ہیں کتنی ہی باتیں

تمہیں ایک طُرفہ طبیعت ملی تھی
انوکھی، نرالی سی فطرت ملی تھی
خلافِ توقع، ملی عمر تم کو
خلافِ توقع، امارت ملی تھی
الٰہی بشارت کے مصداق ٹھہرے
بفضل خدا یہ سعادت ملی تھی
مسیحِ زماں سے محبت تھی تم کو
تو اس کی جماعت کی غیرت بہت تھی
اطاعت کے جذبہ سے سرشار تھے تم
خلافت سے تم کو عقیدت بہت تھی
ہمیشہ لبوں پہ رہی مسکراہٹ
شگفتہ مزاجی، بشاشت بہت تھی
تھی گہری نظر اور رائے تھی صائب
بفضل الٰہی بصیرت بہت تھی
ارادے تھے پختہ امنگیں جواں تھیں
بہت حوصلہ، استقامت بہت تھی
زمانے کا ڈر تھا، نہ دنیا کا لالچ
غناء تھی بہت اور قناعت بہت تھی
کبھی تھک کے راہوںمیں ماندہ نہ دیکھا
کہ پیرانہ سالی میں ہمت بہت تھی
نڈر تھے بہت اور بے باک تھے تم
تھی جرأت بہت اور شجاعت بہت تھی
مجھے تھی تمہاری دعاؤں کی حاجت
ابھی تو تمہاری ضرورت بہت تھی

مجھے یاد آتی ہیں کتنی ہی باتیں

سدا بے بسوں کو سہارا دیا پر
کبھی بات کی اور نہ احساں جتایا
کسی سے شکایت نہ کوئی گلہ تھا
خُدا ہی تمہاری طلب تھا، صلہ تھا
سبھی پوچھتے ہیں کہ آخر ہوا کیا
کہ یکدم ہی سب سے نگاہیں چرا کر
ہر اک ہاتھ سے ہاتھ اپنا چھڑا کر
چلے کیوں گئے بے گماں، چپکے چپکے

مَیں اب کیا بتاؤں؟

جواں ہمتی میں کوئی شک نہیں پر
تھا آخر کو دل دردِ ہجراں کا مارا
بہت ہی سنبھالا، سنبھل نہ سکا
رُک گیا یک بیک ناگہاں، چلتے چلتے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں