صفحات

ہفتہ، 18 جون، 2016

42۔ دعا

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ153۔155

42۔ دعا


اے خدا قادر و کریم مرے
مہرباں میرے اے رحیم مرے
اے مرے مولا اے سمیع و بصیر
اے کہ آقا مرے نعیم مرے

کس طرح تجھکو چھوڑ سکتی ہوں
میرے شہ رگ سے بھی قریب ہے تو
خالق و باری و مصّور ہے
عالم الغیب ہے مجیب ہے تو

ہو ادا کیسے حقِّ شکروسپاس
جان و دل بھی ہوں گو نثار مرے
میرے عِصیاں کا کچھ شمار نہیں
مجھ پہ احساں ہیں بے شمار ترے

میرے ہونٹوں کو تابِ گویائی
میری آنکھوں کو نور بخشا ہے
مجھکو سب نعمتیں عطا کر کے
میرے دل کو سرور بخشا ہے

تیری درگہ میں پیش کرنے کو
کوئی نذرانہ میرے پاس نہیں
تیری رحمت ہو گر نہ شاملِ حال
میری بخشش کی کوئی آس نہیں

میرے دامن میں اے غفور و رحیم
چند آنسو ہیں چند آہیں ہیں
ایک بارِ گناہ سینے پر۔۔۔۔۔۔!
اور ندامت بھری نگاہیں ہیں

میری کم مائیگی پہ بھی تو نے
مجھ سے ایسا سلوک رکھا ہے
اِس جہاں کے دہکتے دوزخ میں
میں نے جنت کا لطف چکھا ہے

اے میری جان تجھ سے آج کے دن
اک یہی التجا میں کرتی ہوں
تو نہ بس ساتھ چھوڑیو میرا
تجھ سے یہ ہی دعا میں کرتی ہوں

حشر کے روز جب فرشتے کہیں
اُس کا یہ جُرم ہے خطا ہے یہ
تب مری جان ہنس کے کہہ دینا
میرے بندے کی اک ادا ہے یہ

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں