صفحات

جمعرات، 16 جون، 2016

51۔ اپنے اعمال نظروں میں پھرنے لگے جب بھی سَر کو جھکایا دُعا کے لئے

رنگِ تغزل

'' شیر و شکر آمیختہ ہم شعر ہے ہم گیت ہے''

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ179۔181

51۔ اپنے اعمال نظروں میں پھرنے لگے جب بھی سَر کو جھکایا دُعا کے لئے


اپنے اعمال نظروں میں پھرنے لگے جب بھی سَر کو جھکایا دُعا کے لئے
اپنی بے مائیگی پہ ندامت ہوئی لفظ ملتے نہیں التجا کے لئے

وہ اگر بخش دے تو ہے اس کی عطا ، جانتی ہوں کہ میری حقیقت ہے کیا
کوئی دعویٰ کروں یہ نہیں حوصلہ کچھ عمل بھی تو ہو ادّعا کے لئے

ذات سے اُن کی ہم جب سے منسوب ہیں اہلِ دُنیا کی نظروں میں معتوب ہیں
پر ہمیں تو یہ کانٹے بھی محبوب ہیں ہم ہیں تیّار ہر اک جفا کے لئے

پیار اُن کا ہی تو رُوحِ ایمان ہے ، اُن سے نسبت ہی تو اپنی پہچان ہے
یہ تعلق نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ، ہم ہیں کوشاں اسی کی بقا کے لئے

یوں نہ تضحیک کی ہم پہ ڈالو نظر ، پالیا ہم نے کیا یہ تمہیں کیا خبر
ہم تو خوش ہیں ہمارا چناؤ ہؤا معرکہ ہائے کرب و بَلا کے لئے

زخم سینوں میں اپنے چھپائے ہوئے ، مسکراہٹ لبوں پہ سجائے ہوئے
پیار کی جوت من میں جگائے ہوئے ، جی رہے ہیں اُسی کی رضا کے لئے

آزماتا ہے ان کو ہی وہ دوستو! جن کے جذبوں پہ محبوب کو ناز ہو
امتحاں میں وہی سرخرو ہو گئے تھے جو تیار ہر ابتلا کے لئے

یہ ادائیں غضب کس قدر کر گئیں ، عشق کی شدّتیں اور بھی بڑھ گئیں
ناز دکھلا کے ان کا چرانا نظر ، تازیانہ ہے شوقِ لِقا کے لئے

ہجر کی تلخیاں کچھ سِوا ہو گئیں ، کُلفتیں فرقتوں کی بَلا ہو گئیں
جوت کتنی اُمیدوں کی بجھنے لگی لَوٹ ہی آئیں اب تو خُدا کے لئے

وہ مجیبِ دُعا آج بھی ہے مگر ، بات کیا ہے کہ آہیں ہوئیں بے اثر
کیا ہمارے یہ جذبے ہی صادق نہیں ، ہاتھ اُٹھتے نہیں یا دُعا کے لئے

ہم تو مجبور ہیں اور لاچار ہیں ، کتنی پابندیوں میں گرفتار ہیں
وہ تو مختار ہے مالکِ کُل بھی ہے ، بات مشکل ہے کیا کبریاء کے لئے

آرزو خوش نصیبوں کی پُوری ہوئی ، اُن کو مولیٰ نے توفیقِ پرواز دی
یاں شکستہ پَری ابتلاء بن گئی جذبہ ہائے خلوص و وفا کے لئے

جب وہ چاہے گا زنجیریں کٹ جائیں گی ، فاصلوں کی طنابیں سمٹ جائیں گی
کام میرے لئے غیر ممکن ہے جو سہل ہے میرے مشکل کُشا کے لئے

جو مجسّم تھا رحمت فقط پیار تھا ، جو محبت کا اِک بحرِ زخّار تھا
نام پر اس کے یاں ایسی باتیں ہوئیں دل تڑپ اُٹھا اس دلرُبا کے لئے

میرے اپنے وطن کے یہ اہلِ قلم جن کو دعویٰ ہے رکھتے ہیں دُنیا کا غم
ہو رہا ہے یہاں جو بھی کیا ہے وہ کم ان کے احساسِ دَرد آشنا کے لئے

سامنے ان کے خونیں تماشے ہوئے ، بے کفن کتنی بہنوں کے لاشے ہوئے
جن کے اسلاف سینہ سپر ہو گئے ، سر سے نوچی گئی اِک رِدا کے لئے

نفرتوں کے الاؤ دہکتے رہے ، اور ہر سمت شعلے لپکتے رہے
آگ میں فکر و احساس جلتے رہے کہ تھا ایندھن بہت اس چِتا کے لئے

امتحاں ٹھیک ہے آزمائش بجا ، پھر بھی انسان کمزور ہے اے خدا
کچھ تسلّی تو دے ، کوئی ڈھارس بندھاخاطِرِ قلبِ لرزیدہ پا کے لئے

آنکھ نم ، دل پریشاں ، جگر سوختہ ، منتظر ہیں ترے لُطف کے مالکا
کب صبا لائے گی مژدۂ جانفزا میری جاں اہلِ شہرِ وفا کے لئے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں