صفحات

بدھ، 15 جون، 2016

53۔ ہے عبادتوں کی تو بات کیا کہ یہ اِک نصاب کی بات ہَے

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ185۔187

53۔ ہے عبادتوں کی تو بات کیا کہ یہ اِک نصاب کی بات ہَے


ہے عبادتوں کی تو بات کیا کہ یہ اِک نصاب کی بات ہَے
ہو شریک دَردِ جہان یہ بھی بڑے ثواب کی بات ہَے

تری محفلوں میں تو واعظا کوئی دل سکون نہ پا سکا
کبھی تذکرہ ہے عذاب کا تو کبھی عتاب کی بات ہَے

تجھے روشنی کی طلب ہے تو مرا شہر آ کے بھی دیکھ لے
کہیں چرچے ماہِ مبین کے کہیں آفتاب کی بات ہَے

کبھی منزلوں کی تلاش ہے کبھی منزلوںپہ قیام ہَے
وہ مرے شعور کی کاوشیں ہیں یہ میرے خواب کی بات ہے

ہے دراز دستِ دُعا مِرا جو ملے اِسے وہ تری عطا
یہ مِرے سوال کا ظرف ہے وہ تِرے جواب کی بات ہے

تِرے ہوتے درگِہ غیر سے مَیں اُمید حُسنِ عطا کروں
مِرے ساقیا ! یہ مرے لئے تو بڑے حجاب کی بات ہے

یہ وہ مَے ہے پی کے جسے ملے مجھے آگہی بھی شعور بھی
جوتِری نظر سے چھلک رہی ہے یہ اُس شراب کی بات ہے

تو ہو سامنے بھی اگر کبھی تو نگاہِ شوق جُھکی رہے
تِری دید کی نہ مجال ہے نہ یہ میری تاب کی بات ہَے

مجھے کیا پتہ مِری کیا ادا تِری بارگہ میں قبول ہو
کہ مِرے عمل کی پرکھ تو بس تِرے احتساب کی بات ہے

یہ کتابِ ذات ہے دوستو یونہی سرسری نہ اسے پڑھو
نہ سرِ ورق کی یہ دلکشی نہ یہ انتساب کی بات ہے

کوئی باب اس کا لہو لہو، کوئی باب اس کا حنا حنا
وہ جو خونِ دل سے رقم ہوئی ہے یہ اُس کتاب کی بات ہے

ہیں اُسی کے خامے کی سرخیاں کہ ورق ورق پہ بکھر گئیں
نہیں جس کا کوئی جواب یہ اُسی لاجواب کی بات ہے

انہی پردہ ہائے وجود میں وہ تجلیات نہاں ہوئیں
رُخِ یار سے جو نہ اُٹھ سکا یہ اسی نقاب کی بات ہے

جو کلی ہو دل کی کھلی ہوئی تو نظر نظر میں چمن کِھلیں
نہ بہار رُت کا ہے ذکر یاں نہ گُل و گلاب کی بات ہے

کرو سوز پیدا کچھ اس طرح کہ دلوں میں آگ دَہک اُٹھے
کہ دعاؤں کے تو معاملے فقط اضطراب کی بات ہے

جو نگاہ جُھک بھی گئی تو کیا ، جو جُھکا یہ سَر بھی تو فائدہ؟
کہ ندامتوں کی حکائیتیں دلِ آب آب کی بات ہے

جو وفا کا ذکر ہوا کبھی تو نگاہ آپ کی جُھک گئی
یہ گمان آپ کو کیوں ہوا کہ یہ آنجناب کی بات ہے

میں یقیں دلاؤں کِسے کِسے کوئی بات ایسی ہوئی نہیں
کہ ہر اک مقام پہ ہر جگہ تیرے اجتناب کی بات ہے

کوئی عمر ہو کوئی دَور ہو پہ دلوں میں جذبے جواں رہیں
مرا دل نہیں اسے مانتا کہ یہ بس شباب کی بات ہے

نہ تو ہست ہے نہ عدم مرا کروں مان خود پہ میں کس طرح
کہ مرے وجود کی بات تو یہی اک حُباب کی بات ہے

کبھی بات حُسنِ طلب کی ہے کبھی بات حُسنِ عطا کی ہے
کہیں قسمتوں کے ہیں فیصلے کہیں انتخاب کی بات ہے

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں