صفحات

پیر، 13 جون، 2016

63۔ یہ بے چینی سی کیسی ہے کچھ اس کا سبب بتلاؤ تو

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ208۔210

63۔ یہ بے چینی سی کیسی ہے کچھ اس کا سبب بتلاؤ تو


یہ بے چینی سی کیسی ہے کچھ اس کا سبب بتلاؤ تو
تم چارہ گر ہو آکے میرے زخموں کو سہلاؤ تو

ہم مُورکھ ہیں، ہم پاپی ہیں، ہم لوبھی ہیں یہ مان لیا
اچّھوں سے تو سب ہی کرتے ہیں تم ہم سے کر دکھلاؤ تو

آکاش کی جانب تکتے تکتے تھکن سی ہونے لگتی ہے
تم اپنے پریمی کی خاطر اِس دھرتی پہ بھی آؤ تو

تم یکتا ہو، تم کامل ہو، تم رہبر ہو، تم منزل ہو
پھر دَر دَر کیوں بھٹکاتے ہو بس اپنی راہ دکھاؤ تو

ہم سے ہے گِلہ کہ ہم جگ کے اصنام کی پوجا کرتے ہیں
وہ سامنے ہیں، تم اوجھل ہو پردے سے باہر آؤ تو

ہر چمکی کو سونا سمجھے اور ہر رُوپا پہ ریجھ گئے
ہر کھوٹی شئے پہ کیوں لپکیں تم رُوپ کی جوت جگاؤ تو

کمزور بہت ہیں چاہیں بھی تو قول نبھا نہیں پاتے ہم
پر تم تو قدرت والے ہو تم اپنا قول نبھاؤ تو

اچھے ہیں بُرے ہیں جو بھی ہیں، جیسے ہیں تمہارے اپنے ہیں
کچھ لاج ہماری رکھ لو اب تم نے ہی کیا ہے چناؤ تو

ترسا ترسا کیوں دیتے ہو کب پیاس بَھلا یُوں بجھتی ہے
تم اپنی مد شالا سے ہمیں بھر بھر کے جام پلاؤ تو

ہم پریم پجاری ہیں ساجن سب ناز اٹھائیں گے لیکن
کبھی ایک تو میری بھی مانو گر اپنی سو منواؤ تو

میں تنہا کب تک بولوں گی تم تو بس سُنتے رہتے ہو
کچھ من کی ڈھارس آس بندھے کوئی ایسی بات سناؤ تو

خوابوں کے سہارے ہی ہم یہ فرقت کا زمانہ کاٹتے ہیں
سپنے تو دکھاتے رہتے ہو تعبیر بھی اب دکھلاؤ تو

وہ لوگ جو ہم سے دُور ہوئے یاد آئیں تو بے کل کرتے ہیں
سینے میں تپک سی رہتی ہے بھرتے ہی نہیں یہ گھاؤ تو

سینے میں الاؤ جلتے ہیں، رگ رگ میں شرارے پلتے ہیں
تم اپنے پیار کی برکھا سے یہ بھڑکی آگ بجھاؤ تو

ہے دُھوپ کڑی کٹھنائی کی یہ تن من جھلسے جاتے ہیں
کچھ پنڈا ٹھنڈا کرلیں ہم ، تم رحمت مینہہ برساؤ تو

اک شخص جو بے حد پیارا تھا مجھے بول یہ اس کے یاد آئے
ہر روز ہی بڑھتے جاتے ہیں اس جیون کے الجھاؤ تو

سُن میرے گِلے ہنس کے بولے کیا تم پہ شکوے سجتے ہیں
کبھی اپنے اندر بھی جھانکو کچھ کرنی پہ شرماؤ تو

پچھتاوے اَچھے ہوتے ہیں جیون کو سنبھالا دیتے ہیں
جو بیت گئی سو بیت گئی اَب بیتی پہ پچھتاؤ تو

جب سُکھ پایا تو دُور ہوئے اور درد مِلا تو لَوٹ آئے
کیا پریمی ایسے ہوتے ہیں کچھ پریت کی ریت نبھاؤ تو

اِک شخص کے ذمّے ڈال دیئے شب کی زاری دن کے نالے
وہ تنہا روتا رہتا ہے کچھ تم بھی نِیر بہاؤ تو

بس میری خطائیں جانے دو کب میں نے کہا کہ عدل کرو
مَیں رحم کی طالب ہوں تم سے تم ''کُن'' کی شان دکھاؤ تو

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں