صفحات

اتوار، 12 جون، 2016

67۔ دن کی تھکن اتارنے شام ڈھلے پہ گھر گیا

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ219۔220

67۔ دن کی تھکن اتارنے شام ڈھلے پہ گھر گیا


دن کی تھکن اتارنے شام ڈھلے پہ گھر گیا
سویا ہؤا ہے چین سے کہتا ہے کون مر گیا

کب ، کیسے، کس طرح ، کہاں ، کیوں گیا ، اس کو چھوڑیئے
جانا تھا اسکو ایک دن بات ہے مختصر ۔ گیا

درد کی شدّتیں بڑھیں، چارہ کوئی نہ ہو سکا
آہ بھی رائیگاں گئی، نالہ بھی بے ثمر گیا

تاب و تواں ، شباب ، رُوپ ، وقت چُرا کے لے گیا
ہاتھ سے بھی سکت گئی، بات سے بھی اثر گیا

کرب کی کیفیت کا حال سوختہ تن سے پوچھئے
لوگوں کو کیا خبر کہ جو کہتے ہیں زخم بھر گیا

لاکھ چلے سنبھل سنبھل بات وہاں نہ بن سکی
چپکے سے آکے جب کوئی پیچھے سے وار کر گیا

کیسے ستم کی بات ہے آیا جو دَرد بانٹنے
اپنے دکھوں کا بوجھ بھی سینے پہ میرے دھر گیا

گردشِ وقت نے مجھے ایک نیا جنم دیا
وہ جو اَنا کا تھا اسیر یارو وہ شخص مر گیا

بھٹی میں تجربات کی کوئی پڑا تو یوں ہؤا
رُوپ تو ماند پڑ گیا، ذہن مگر نکھر گیا

حُسن کی نظرِ التفات جب بھی پڑی ہے عشق پر
اُس کے نصیب جاگ اُٹھے، اُس کا جہاں سنور گیا

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں