صفحات

بدھ، 8 جون، 2016

80۔ خرد کی میزان پہ تلیں جو وہ چاہتیں کیا وہ پیار کیسا

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ250۔252

80۔ خرد کی میزان پہ تلیں جو وہ چاہتیں کیا وہ پیار کیسا


خرد کی میزان پہ تلیں جو وہ چاہتیں کیا وہ پیار کیسا
دلوں کے ہوتے ہیں نقد سودے محبتوں میں ادھار کیسا

اے کور چشمو ذرا تو دیکھو وہ اپنے جلوے دکھا رہا ہے
دمک رہا ہے چمک رہا ہے یہ آج روئے نگار کیسا

نگاہ اُن سے ملی ہے جب سے عجیب کیف و سرور سا ہے
یہ دل بھی حیران ہو رہا ہے کہ بن پئے ہی خمار کیسا

یہ کس کی آمد کے تذکرے ہیں کہ باغ سارا مہک اُٹھا ہے
کلی کلی میں چٹک ہے کیسی روش روش پہ نکھار کیسا

ہے وقت کی بات زاوئیے جو نگاہ و دل کے بدل رہے ہیں
جو آج نظریں چُرا رہا ہے وہ ہو رہا تھا نثار کیسا

قناعتوں کا اصول یہ ہے جو نہ ملے اُس کو بھول جاؤ
جو حد نہیں آرزو کی کوئی تو حسرتوں کا شمار کیسا

گلی گلی میں ہر اک زباں اک نئی کہانی سُنا رہی ہے
یہ میرے رازوں کا رازداں نے لگا دیا اشتہار کیسا

بہت سے پیچیدہ موڑ آئیں گے ہمتوں کو جوان رکھنا
اگر مسائل کی ہے یہ دنیا تو مسئلوں سے فرار کیسا

یہ کیسا سوزِجگر ہے سینہ دہک رہا ہے سلگ رہا ہے
لہو میں مل کے رگوں میں گردش یہ کر رہا ہے شرار کیسا

تڑپ تڑپ کے مچل مچل کے مجھے ہراساں کئے ہے دیتا
ہے جب تلک بر میں دل سافتنہ، سکون کیسا قرار کیسا

ہو رابطہ درمیاں میں کوئی تو لوٹ آنے کی آس بھی ہو
جو سب تعلق ہی توڑ ڈالے تو اُس کا پھر انتظار کیسا

تمہاری ہر اک ادا سے کیسی خود اعتمادی جھلک رہی ہے
یہ چاہتوں کی عطا نے بخشا ہے ذات کا اعتبار کیسا

ہے بیعتِ دل کا یہ تقاضا کہ نفس کو خاک میں ملا دیں
جو ذات ہی اپنی بیچ دی تو خیال عزّووقار کیسا

وہ جن کو چاہیں پیا اُنہی کو سہاگنوں کی سند ملی ہے
نہ پی کی نظروں میں جو سمائے وہ روپ کیسا سنگھارکیسا

چلو یہ مانا کہ اہلِ دنیا بہت بُرے ہیں مگر بتاؤ
تمہارے ہاتھوں میں پھول کیوں ہیں تمہاری گردن میں ہار کیسا

وہ بیٹھ کے مجلسوں میں اپنی ہر اک پہ باتیں بنا رہا تھا
جو روبرو آئینے کے آیا تو ہو گیا شرمسار کیسا

لرزتی گردن ، خمیدہ شانے، بدن تھکن سے ٹسک رہا ہے
اٹھائے پھرتے رہے ہیں آخر ہم اپنے کاندھوں پہ بار کیسا

خود اپنے جذبوں کے سنگ ریزوں سے چھلنی چھلنی ہوا ہے سینہ
یہ میرے اپنے ہی دل نے ہے کر دیا مجھے سنگسار کیسا

اگر کوئی غیر اس میں آ کے نقب لگائے تو خود ہی سوچو
کہ پیار کی یہ فصیل کیسی ہے چاہتوں کا حصار کیسا

یہ ترش باتیں یہ تلخ لہجے اور اس پہ دعوے محبتوں کے
یہ دوستی کے چلن ہیں کیسے یہ دلبری کا شعار کیسا

چلی نہیں گر اَنا کی آندھی تمہی کہو پھر کہ بات کیا ہے
یہ میرے چہرے پہ گرد کیسی تمہارے دل میں غبار کیسا

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں