صفحات

پیر، 6 جون، 2016

88۔ کاش اب تو زندگی میں ابتلاء کوئی نہ ہو

ہے دراز دستِ دعا مرا صفحہ268۔270

88۔ کاش اب تو زندگی میں ابتلاء کوئی نہ ہو


کاش اب تو زندگی میں ابتلاء کوئی نہ ہو
آزمائش کا کٹھن اب مرحلہ کوئی نہ ہو

چاہتا ہے دل مرا کہ پُر سکوں ہو زندگی
رنج و غم، یاس و الم میں مبتلا کوئی نہ ہو

رقص فرما ہوں بہاریں گلستاں میں چار سُو
سب ہوں آسودہ گرفتارِ بلا کوئی نہ ہو

راستے ہموار ہوں اور منزلیں آسان ہوں
الجھنیں، پیچیدہ فکریں، مسئلہ کوئی نہ ہو

سوچتی ہوں مَیں کہ کیا ایسا کبھی ممکن بھی ہے
زندگی بھرپور ہو اس میں خلا کوئی نہ ہو

ہو پرکھ اہلِ وفا کی کس طرح سے پھر اگر
راہِ ہستی میں جو دشتِ کربلا کوئی نہ ہو

ہے فقط اہلِ وفا کو تو وفاؤں سے غرض
گرچہ یاں اُن کی وفاؤں کا صلہ کوئی نہ ہو

ایسا دل کس کام کا احساس سے عاری ہو جو
خواہشیں، جذبے، امنگیں، ولولہ کوئی نہ ہو

اُس کو پانا ہے اگر تو اپنی ہستی کو مٹا
بیچ میں تیری اَنا کا سِلسلہ کوئی نہ ہو

خواہ ٹوٹے مان یا کہ چوٹ بھی دل پر پڑے
پھر بھی بہتر ہے یہی لب پہ گلہ کوئی نہ ہو

آہ بھی نِکلے تو پڑجائیں ہوا میں آبلے
اس طرح سے بھی جہاں میں دل جلا کوئی نہ ہو

رات دن تپتا ہو جو سِینہ وفورِ سوز سے
کیسے ہو سکتا ہے اس میں آبلہ کوئی نہ ہو

آؤ دیوانوں کی اک بستی بسائیں ہم جہاں
سب گریباں چاک ہوں دامن سِلا کوئی نہ ہو

ہے تباہی کا سبب کچھ تو کہ ممکن ہی نہیں
زلزلہ تو ہو مقامِ زلزلہ کوئی نہ ہو

دل ملیں ایسے کہ پھر فرقِ من و تُو نہ رہے
فرقتیں بھی ہوں اگر تو فاصلہ کوئی نہ ہو

مَیں تو کٹھ پتلی ہوں جو بھی اُس نے چاہا ہو گیا
کیا کروں گر اختیارِ فیصلہ کوئی نہ ہو

قطعہ
مرے حبیب دیکھ تو تیرے یہ جانثار
کس درجہ دل گرفتہ ہیں کتنے ہیں بے قرار

ہر دل ہے مثلِ ماہی ء بے آب آج کل
سینے تپک رہے ہیں تو آنکھیں ہیں اشکبار

کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں