صفحات

اتوار، 31 جولائی، 2016

245۔ اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ364

245۔ اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں


اسی کو قرب، اسی کو صلہ بھی کہتے ہیں
قفس نصیب اسے فاصلہ بھی کہتے ہیں

یہ دور دور جو صحرا ہے بے یقینی کا
یقین ہو تو اسے کربلا بھی کہتے ہیں

وہی تو ہے کہ جو محرم ہے منزلِ غم کا
وہ رہنما کہ جسے قافلہ بھی کہتے ہیں

گیا بھی ہے تو وہ ہر بار لوٹ آیا ہے
بہت قدیم ہے یہ سلسلہ بھی، کہتے ہیں

عجیب بات ہے تم نے اسے نہ پہچانا
وہ معجزہ جسے دستِ دعا بھی کہتے ہیں

وہی تو ہے کہ جو آیا ہے میرے تیرے لیے
وہ ایک اچھا کہ جس کو برا بھی کہتے ہیں

کبھی تو ہو گا ادا آسمانِ غیرت پر
وہ قرضِ خوں کہ جسے خوں بہا بھی کہتے ہیں

نظر بھی آتا ہے اور راہ بھی دکھاتا ہے
وہ نقشِ پا جسے قبلہ نما بھی کہتے ہیں

زہے وہ حرفِ تسلّی، زہے وہ اذنِ سلام
جسے وفاؤں کا مضطرؔ! صلہ بھی کہتے ہیں

اگست ،١٩٨٨ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں