صفحات

ہفتہ، 30 جولائی، 2016

246۔ اس قدر مت خموش جان ہمیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ365

246۔ اس قدر مت خموش جان ہمیں


اس قدر مت خموش جان ہمیں
بے زبانی بھی ہے زبان ہمیں

ہم ہیں افراد غم قبیلے کے
ہو مبارک یہ خاندان ہمیں

قریۂ جاں میں، کوچۂ دل میں
کوئی دلوایئے مکان ہمیں

ہم مؤذّن ہیں عہد کے لیکن
کوئی دینے بھی دے اذان ہمیں

پھول خوشبو کے تھے سفیر مگر
دے گئے لمس کی تکان ہمیں

کس نے آنکھیں بنا کے پھینک دیا
اتنے چہروں کے درمیان ہمیں

ق

اس قدر بدگمانیوں کے بعد
کیا کہے گا وہ بدگمان ہمیں

کر لیا اس نے شہر پر قبضہ
بانٹ کر شہر کے مکان ہمیں

چھین کر لے گیا سفر کا شعور
دے گیا راہ کی تکان ہمیں

ہجر میں ہے وصال کی لذّت
ارضِ ربوہ ہے قادیان ہمیں

اس کو لکھا ہے ہم نے پلکوں سے
حفظ ہے ساری داستان ہمیں

ہم بغلگیر ہیں ستاروں سے
ہنس کے ملتا ہے آسمان ہمیں

دائیں بائیں کا فرق ہے پیارے!
تُو اسے مان لے یا مان ہمیں

اب تو تن کی خبر نہیں مضطرؔ!
کبھی من کا تھا گیان دھیان ہمیں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں