صفحات

جمعہ، 29 جولائی، 2016

252۔ راہ کی روشنی، منزل کا اُجالا دینا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ373۔374

252۔ راہ کی روشنی، منزل کا اُجالا دینا


راہ کی روشنی، منزل کا اُجالا دینا
کوئی تو ہجر کی شب اپنا حوالہ دینا

غم جدا، غم کی علامات جدا لا دینا
میری پہچان مجھے بہرِ خدا لا دینا

تیری ہر دین پہ ہے تیرا حوالہ دینا
جو بھی دینا ہے مجھے ارفع و اعلیٰ دینا

لذّتِ وصل سے پُر وصل پیالہ دینا
کوئی فرقت کا نہ اب کوہِ ہمالہ دینا

میرے بچوں کی بھی خواہش ہے کہ تجھ کو دیکھیں
اِن چراغوں کو شبِ ہجر سنبھالا دینا

آنکھ دی ہے تو اسے بخش دے بینائی بھی
دل اگر دینا ہے تو چاہنے والا دینا

مَیں کہ آواز کا سقراط ہوں میرِ مقتل
میری آواز کو بھی زہر پیالہ دینا

وہ صداقت جو نئی بھی ہے، پرانی بھی ہے
اس صداقت کا کوئی تازہ حوالہ دینا

ہم فقیروں کو سرِ دار اگر تو مل جائے
اس سے بالا نہ کوئی منصبِ بالا دینا

چاند چہرے کا کوئی آنکھ کا تارا مضطرؔ!
رات کالی ہے تو ماحول نہ کالا دینا

٢٤جون،١٩٨٧

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں