صفحات

جمعہ، 29 جولائی، 2016

254۔ میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا


اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ376

254۔ میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا


میرا نامہ پڑھ کے میرا نامہ بر ہنسنے لگا
اور پھر تو یوں ہؤا کہ شہر بھر ہنسنے لگا

اس کو ہنسنے کے الم کا کوئی اندازہ نہ تھا
مجھ کو ہنستا دیکھ کر وہ بے خبر ہنسنے لگا

بے خبر! مجبور کو ہنسنے پہ مت مجبور کر
تیرا کیا باقی رہے گا وہ اگر ہنسنے لگا

ہنسنے رونے میں بظاہر فاصلہ کوئی نہ تھا
رات جو رویا تھا ہنگامِ سحر ہنسنے لگا

میرے عرضِ حال پر وہ ہو گیا بے تاب سا
اور پھر کیا جانیے کیا سوچ کر ہنسنے لگا

کس محبت سے در و دیوار نے دیکھا اسے
مسکرائے آئنے اور گھر کا گھر ہنسنے لگا

بخش دی مضطرؔکواُس نے جب سے غم کی سلطنت
التجائیں مسکرائیں اور اثر ہنسنے لگا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں