صفحات

بدھ، 27 جولائی، 2016

262۔ رنگ و بو کا سفر تمام ہؤا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ388

262۔ رنگ و بو کا سفر تمام ہؤا


رنگ و بو کا سفر تمام ہؤا
پھول سے پھول ہم کلام ہؤا

تُو ہؤا یا ترا پیام ہؤا
وصل کا کچھ تو اہتمام ہؤا

مجھ کو خلعت ملی غلامی کی
عشق کا ملک میرے نام ہؤا

آپؐ آقاؤں کے بھی ہیں آقاؐ
مَیں غلاموں کا بھی غلام ہؤا

مَیں مقامی ہوں اور کہیں بھی نہیں
تُو ہؤا اور بے مقام ہؤا

گِر گیا جو تری نظر سے گرا
تُوؐ نے جس کو چنا اِمام ہؤا

جیسے سچ مچ ہی آ گئے ہوں آپ
آہٹوں کا وہ اژدہام ہؤا

جب ہؤا، تیرے نام پر ہر بار
ہم فقیروں کا قتلِ عام ہؤا

کربلا ہے کہیں، کہیں ربوہ
یہ تماشا بھی صبح و شام ہؤا

ہم بھی جائیں گے سر کے بل مضطرؔ!
دید کا جب بھی اذنِ عام ہؤا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں