صفحات

اتوار، 24 جولائی، 2016

277۔ رات ڈھل جائے گی، سورج کا سفر بھی ہو گا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ409۔410

277۔ رات ڈھل جائے گی، سورج کا سفر بھی ہو گا


رات ڈھل جائے گی، سورج کا سفر بھی ہو گا
صبح ہوتے ہی کوئی شہربدر بھی ہو گا

پھر سرِ اوجِ سناں عشق کی ہو گی تصدیق
حسن خود دیکھنے آئے گا جدھر بھی ہو گا

کوئی تو سمجھے گا اس عہد کے آدم کی زباں
شہرِ مسحور میں کوئی تو بشر بھی ہو گا

تُو ہے وہ خواب جسے عین حقیقت کہیے
تُو مرے پہلو میں ہنگامِ سحر بھی ہو گا

تیری تصویر کو پلکوں پہ سجانے والا
خود ہی تصویر نہ بن جائے، یہ ڈر بھی ہو گا

تیرے دیدار کی طاقت تو نہ ہو گی لیکن
ہر کوئی تیری طرف محوِ سفر بھی ہو گا

عشرتِ سجدہ نہ ہو گی مجھے حاصل کیا کیا
تیری دہلیز بھی ہو گی، مرا سر بھی ہو گا

تُو کہیں چاند، کہیں پھول، کہیں شبنم ہے
حسنِ آوارہ! ترا کوئی تو گھر بھی ہو گا

تم سرِ دار کبھی اس کو بلاؤ تو سہی
خود چلا آئے گا وہ شوخ جدھر بھی ہو گا

ہے ابھی وقت کوئی اس کا مداوا کر لے
اب کے سیلاب کی زد میں ترا گھر بھی ہو گا

دشت در دشت گئی رُت کا منادی مضطرؔ!
دشت میں آیا تو اب دشت بدر بھی ہو گا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں