صفحات

جمعہ، 22 جولائی، 2016

286۔ لمحے بیچ دیے، صدیاں نیلام کرو

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ425۔426

286۔ لمحے بیچ دیے، صدیاں نیلام کرو


لمحے بیچ دیے، صدیاں نیلام کرو
وقت حسینؓ ہے اس کا قتلِ عام کرو

اندر آ جاؤ دل کے دروازے سے
راہ میں رک کے ٹریفک کو مت جام کرو

جیسے بھی ہو اس کی کوکھ سے نکلے ہو
نادانو! دھرتی کا کچھ اکرام کرو

آنکھیں ہوں تو اپنی صورت پہچانو
آئینوں کو مت زیرِ الزام کرو

پردہ اُٹھ جانے دو گھور اندھیروں سے
روشنیوں کا چرچا صبح و شام کرو

ایسا نہ ہو مَیں گھل مل جاؤں غیروں میں
میرے دوست بنو، مجھ کو بدنام کرو

عادت نہ پڑ جائے سفر میں جھکنے کی
خیمے اونچے رکھّو جہاں مقام کرو

عقل پہ قبضہ کر رکھا ہے اَوروں نے
اس جاگیر کو اب اپنوں کے نام کرو

صُمٌّ ُبکْمٌ عُمْیٌ کی دیواروں سے
روزن روزن تفہیم و افہام کرو

میری غزلیں گاؤ شہروں گلیوں میں
مجھ پر پتھر پھینکو، مجھے سلام کرو

پتھر ہوں تو کام لو کوئی پتھر سے
چہرہ ہوں تو آئینہ انعام کرو

ٹھیس نہ لگ جائے گونگے سنّاٹوں کو
صوت و صدا کو خاموشی الہام کرو

دامن تھام لو سوہنے سچّے مرشد کا
ہر رہ چلتے کو مت پیش امام کرو

زندہ رہنے کی اب ایک ہی صورت ہے
سوتے جاگتے مضطرؔ! شور مدام کرو

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں