صفحات

جمعہ، 15 جولائی، 2016

322۔ آہوں کی بانہیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ475۔476

322۔ آہوں کی بانہیں


آہوں کی بانہیں لمبی ہیں
ان بانہوں کو مت پھیلاؤ
ان بانہوں کی دربانی سے
ان آہوں کی عریانی سے
اظہار کے رستے بند ہوئے
ہم لفظوں کے پابند ہوئے
چپ رہنے پر مجبور ہوئے
ہم تھک کر چکنا چور ہوئے
اظہار کے اوجھل رستوں پر
آوازوں کے چورستوں پر
مفہوم کہ زخمی رہتے ہیں
ہر رہ چلتے سے کہتے ہیں
ہم چھپ چھپ کر مہمان گئے
سب جان گئے، پہچان گئے
اب موڑ دو رُخ آوازوں کے
در بند کرو دروازوں کے
لب پر نہ فغاں کو آنے دو
جاں جلتی ہے جل جانے دو
طوفانوں سے مت گھبراؤ
تم ساحل ساحل آ جاؤ
اظہار کی راہیں لمبی ہیں
آہوں کی بانہیں لمبی ہیں
ان بانہوں کو مت پھیلاؤ
خاموش رہو یا سو جاؤ

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں