صفحات

جمعرات، 14 جولائی، 2016

328۔ فاصلے ان کے ہمارے درمیاں کہنے کو ہیں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ484

328۔ فاصلے ان کے ہمارے درمیاں کہنے کو ہیں


فاصلے ان کے ہمارے درمیاں کہنے کو ہیں
لوگ اس نامہرباں کو مہرباں کہنے کو ہیں

گھر کے سنّاٹوں سے محوِ گفتگو ہیں آہٹیں
یہ مکاں خالی نہیں، خالی مکاں کہنے کو ہیں

منزلیں گُم ہو گئیں، رستے اکیلے رہ گئے
یہ جو قدموں کے نشاں سے ہیں، نشاں کہنے کو ہیں

کچھ بزرگوں کا ادب باقی نہ چھوٹوں کا لحاظ
یہ ادب آداب کی باتیں میاں! کہنے کو ہیں

ایک ہی حسرت تھی مضطر!ؔ وہ بھی پوری ہو گئی
حسرتوں کے کارواں در کارواں کہنے کو ہیں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں