صفحات

بدھ، 13 جولائی، 2016

335۔ یہ نشاں ہے جو بے نشان سا ایک

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ495۔496

335۔ یہ نشاں ہے جو بے نشان سا ایک


یہ نشاں ہے جو بے نشان سا ایک
اس میں آباد ہے جہان سا ایک

اشک ہے یہ جو بے زبان سا ایک
یہی اپنا ہے ترجمان سا ایک

اس سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہوں
دل کے اندر ہے بدگمان سا ایک

حوصلہ کر عطا مجھے یا ارب!
میرا دشمن ہے بدزبان سا ایک

صبح ہوتے ہی اُڑ نہ جائے کہیں
یہ پرندہ ہے میہمان سا ایک

شہرِ جاناں! ہو تیری عمر دراز
تو زمیں پر ہے آسمان سا ایک

ہے اگر تو ہمیں بھی بتلاؤ
یار اُس یارِ مہربان سا ایک

آج مظہر ہے قدرتِ حق کا
وہ جو کل تک تھا نوجوان سا ایک

زہے قسمت غلام ہوں اُس کا
جو ہے وعدے کا اور زبان کا ایک

ایسے لگتا ہے اس کے سائے میں
جیسے سر پر ہو سائبان سا ایک

وہی لیل و نہار ہیں اُس کے
شہرِ ربوہ ہے قادیان سا ایک

موڑ کے بعد آ رہا ہے موڑ
ہر قدم پر ہے امتحان سا ایک

چومکھی لڑ رہا ہے طوفاں سے
جنگجو ہے کوئی چٹان سا ایک

بھیجنے والے! بھیج بادِ مراد
اور بادل بھی بادبان سا ایک

تم بھی اے کاش کہہ سکو مضطرؔ!
شعر کوئی نصیر خان سا ایک

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں