صفحات

اتوار، 21 اگست، 2016

136۔ میں بچھڑ تو گیا، جدا نہ ہؤا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ213

136۔  میں بچھڑ تو گیا، جدا نہ ہؤا


میں بچھڑ تو گیا، جدا نہ ہؤا
مجھ کو فرقت کا غم ذرا نہ ہؤا

اشک آنسو تھا جب روانہ ہؤا
پھیلتے پھیلتے فسانہ ہؤا

اب عروسِ خرد کی بات کرو
دل کا قصّہ بہت پرانا ہؤا

دل کی چالوں سے بچ سکو تو بچو
ایک عیّار ہے یہ مانا ہؤا

لاکھ سمجھایا، لاکھ دھمکایا
یہ گنہگار پارسا نہ ہؤا

نِگّھروں کے غریب خانے پر
آپ ہی کہیے کیسے آنا ہؤا

لاکھ دعوے کیے خدائی کے
بندہ بندہ رہا خدا نہ ہؤا

اس کی ستاریوں کے صدقے میں
میں بُرا ہو کے بھی بُرا نہ ہؤا

ہوگئی کائنات زیر و زبر
رات کا تیر تھا خطا نہ ہؤا

اس کا احساں ہے اس سے مل کر بھی
جس کا ڈر تھا وہ حادثہ نہ ہؤا

دشمنوں سے بھی دشمنی نہ ہوئی
دوستوں کا بھی حق ادا نہ ہؤا

یہ رِہائی نہیں اسیری ہے
مَیں رِہا ہو کے بھی رِہا نہ ہؤا

اس کے احسان کیسے گِنواؤں
جو خفا ہو کے بھی خفا نہ ہؤا

زندگی ہنس کے وار دی اس پر
شکر کا پھر بھی حق ادا نہ ہؤا

دل کی دنیا بدل گئی مضطرؔ!
ان کے ہاں جب سے آنا جانا ہؤا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں