صفحات

اتوار، 21 اگست، 2016

137۔ نذرِغالبؔ

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ214

137۔ نذرِغالبؔ


طائرِ غم جو کبھی نغمہ سرا ہوتا ہے
دل کا ہر سوکھا ہؤا زخم ہرا ہوتا ہے

رات بھر ہوتی ہیں دل کھول کے دل کی باتیں
ایک مَیں ہوتا ہوں، اک میرا خدا ہوتا ہے

ریت کے سینے پہ جب ہوتا ہے لہروں کاخرام
دشت در دشت کوئی سوچ رہا ہوتا ہے

رقص فرماتے ہیں جس وقت غزالانِ خیال
تُو بھی خاموش کہیں پاس کھڑا ہوتا ہے

پاسِ آدابِ نظر چاہیے اے محوِ جمال!
آنکھ کیا ہوتی ہے اک شہرِ حیا ہوتاہے

پیاس تو پیاس ہے، بجھتی ہے یہ بجھتے بجھتے
سینکڑوں کانٹوں میں اک آبلہ پا ہوتا ہے

مضطرِ ؔسوختہ جاں! بات سنبھل کر کیجو
شعر بن جاتا ہے جو تیرا کہا ہوتا ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں