صفحات

جمعہ، 12 اگست، 2016

182۔ کس لیے سائے سے ڈرتے ہو میاں!

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ272

182۔ کس لیے سائے سے ڈرتے ہو میاں!


کس لیے سائے سے ڈرتے ہو میاں!
کیوں نہیں کہتے جو کرتے ہو میاں!

کوئی تم کو دیکھنے والا نہیں
کس لیے بنتے سنورتے ہو میاں!

تم نے دل کی بات کیوں مانی نہ تھی
اب نہ جیتے ہو، نہ مرتے ہو میاں!

اس سے کچھ عزّت نہیں بڑھ جائے گی
چوٹ کھا کر کیوں مکرتے ہو میاں!

بے ہنر، خوددار، دیوانہ، حقیر
کس لیے مضطرؔ پہ مرتے ہو میاں!

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں