صفحات

جمعرات، 15 ستمبر، 2016

12۔ تنہائی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ20۔22

12۔ تنہائی


تنہائی

دیدہ و دل میں کَھول رہے ہیں درد کے اوقیانوس
مجبوروں کے ایشیا اور مزدوروں کے رُوس
تنہائی میں جل اُ ّٹھے ہیں یادوں کے فانوس
یاد کی جوت جگائی
تنہائی ، تنہائی

بنجر ٹیلوں میں اُگ آئے خواہش کے شہتوت
حال کے گلشن میں لا رکھا ماضی کا تابوت
بزمِ طرب میں ڈرتے ڈرتے آیا ایک اچھوت
کیوں ڈرتے ہو بھائی!
تنہائی ، تنہائی

پت جھڑ کے طوفان میں پیلے  ّپتے ہیں مجبور
وقت کا سینہ کھود رہے ہیں لمحوں کے مزدور
تنہائی میں چاند نے چوسے اشکوں کے انگور
آگ سے آگ بجھائی
تنہائی ، تنہائی

دھیان کی ٹہنی ٹہنی پر رقصاں ہیں من کے مور
لفظوں کے دروازے توڑ رہے ہیں گونگے چور
دشت کے سینے میں برپا ہے تنہائی کا شور
قیس نے ٹھوکر کھائی
تنہائی ، تنہائی

شعر کے گورے گال پہ نکلا تنہائی کا تل
لفظوں کے درویش کھڑے ہیں اُٹھ عزّت سے مل
یاد کی گت پر ناچ رہے ہیں دروازوں کے دل
چیختی ہے شہنائی
تنہائی ، تنہائی

یہ کس کی تصویر کو جھک کر چوم رہے ہیں چاند
نیند کی نیّا ڈول رہی ہے جھوم رہے ہیں چاند
پانی کے پردیس میں تنہا گھوم رہے ہیں چاند
پار پون لہرائی
تنہائی ، تنہائی

کوٹھوں پر یوں سیر کو نکلی ہیں کس کی آشائیں
نچلی منزل والوں سے کہہ دو اوپر مت آئیں
تھک جائیں تو بھیگی آنکھوں سے تلوے سہلائیں
گھورتی ہے گہرائی
تنہائی ، تنہائی

روما کی دیواروں سے رِستی ہے خون کی مَے
سیزر کو جب مار چکو، بولو سیزر کی جَے
مصر کے مردہ خانوں میں اک ممّی بول رہی ہے
ہنستا ہے سودائی
تنہائی ، تنہائی

وقت کی نیلی جھیل میں اُٹھّا لمحوں کا طوفان
انسانوں سے آن ملیں گے پھر واپس انسان
صحرا کے سینے میں جاگے آس کے نخلستان
دشت میں آندھی آئی
تنہائی ، تنہائی
۵۲۔۱۹۵۱ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں