صفحات

جمعہ، 30 ستمبر، 2016

158۔ تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ111۔112

158۔ تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی


تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی

کہتے تھےہم کہ جی نہ سکیں گے ترے بغیر
یہ کیا ہُوا کہ تجھ سے محبت نہیں رہی

رُسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پر یہ ہُوا کہ خُود سے ندامت نہیں رہی

کھنچتی تھی جس سےحرف میں اِک صورتِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی

اے موسمِ حیات و زمانہ کے شکوہ سنج
کیاصبر آگیا  کہ شکایت نہیں رہی

کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں
دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمّت نہیں رہی

جس سمت جائیے وہی ملتے ہیں اپنے لوگ
اُس کی گلی ہی کوئے ملامت نہیں رہی

1972ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں