صفحات

پیر، 26 ستمبر، 2016

172۔ ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ135۔136

172۔ ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار


ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار
اے مری روشنیء طبع مجھ کو اور سنوار

نشاط ِ رنج ہو رنج ِ نشاط ہو کچھ ہو
حیات رقص ہے وحشت کا اور دائرہ وار

اُسی کا نام محبت ہوا زمانے میں
وہ اک نشہ کہ سیکھا نہیں ہے جس نے اُتار

میں اعتراف ِ شکست بہار کر لوں گا
ذرا اڑے تو سہی بوئے زلف ِ عنبر یار

رہ وفا میں چلو پھر سے اجنبی بن جائیں
کہ ڈھل رہا ہے پرانی محبتوں کا خمار

اس ایک قطرہ خوں کا ہے نام شعر علیم
جو دل میں ہو تو خزاں اور ٹپک پڑے تو بہار

1965ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں