صفحات

پیر، 12 ستمبر، 2016

29۔ دل دیا ہے تو اب اتنا کر دے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ43۔44

29۔ دل دیا ہے تو اب اتنا کر دے


دل دیا ہے تو اب اتنا کر دے
اس کو کچھ اَور کشادہ کر دے

بھر نہ جائے کہیں سہلانے سے
زخم کو اَور بھی گہرا کر دے

کہیں ایسا نہ ہو میرا سایہ
تیری تصویر کو دھندلا کر دے

پھر پسِ پردۂ گردِ ایّام
کوئی لمحہ نہ اشارہ کر دے

مَیں ہوں شرمندۂ خوابِ غفلت
مر چکا ہوں، مجھے زندہ کر دے

بھول جائے نہ مرا نام مجھے
اس کو الزام پہ کندہ کر دے

فرطِ حیرت سے کہیں آئینہ
تیری صورت کو نہ سجدہ کر دے

چڑھ بھی اے آنکھ کے سچّے سورج!
اب تو پلکوں پہ اُجالا کر دے

مل نہ جائے کہیں آوازوں میں
میری آواز کو رُسوا کر دے

مجھ کو ڈر ہے کہ یہ میرا آنسو
تیرے دامن کو نہ مَیلا کر دے

مَیں تجھے دل تو دکھا دوں مضطرؔ!
تو اگر اس کا نہ چرچا کر دے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں