صفحات

اتوار، 11 ستمبر، 2016

32۔ مَیں ہی تو نہیں پگھل رہا تھا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ49۔50

32۔ مَیں ہی تو نہیں پگھل رہا تھا


مَیں ہی تو نہیں پگھل رہا تھا
اس کا بھی لباس جل رہا تھا

وہ جا بھی چکا تھا مجھ سے مل کر
مَیں تھا کہ ابھی سنبھل رہا تھا

گلشن کا نہ تھا قصور اس میں
موسم ہی نہیں بدل رہا تھا

اس شور زمیں میں پیڑ غم کا
جیسا بھی تھا پھول پھل رہا تھا

فرقت کا نہیں تھا داغ دل میں
صحرا میں چراغ جل رہا تھا

دریا کو تھا پی چکا سمندر
ساحل کو بھی اب نگل رہا تھا

جنت کا شجر تھا اور اس کے
سائے میں گناہ پل رہا تھا

مَیں ہی تو نہیں تھا اپنے ہمراہ
تو بھی مرے ساتھ چل رہا تھا

آیا تھا میں آئنوں سے مل کر
زخمی تھا مگر سنبھل رہا تھا

دل تھا کہ اسے قریب پا کر
بچّوں کی طرح مچل رہا تھا

رونا تو وہ چاہتا تھا لیکن
آنسو ہی نہیں نکل رہا تھا

سردی تھی کہ بڑھ رہی تھی مضطرؔ!
سورج تھا کہ پھر بھی ڈھل رہا تھا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں