صفحات

جمعہ، 16 ستمبر، 2016

9۔ تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ17

تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا


تان کر چہروں کی چادر دھوپ کو ٹھنڈا کیا
دم اگر گھٹنے لگا تو ہاتھ سے پنکھا کیا

کھٹکھٹانے پر بھی دل کا وا نہ دروازہ کیا
ہم نے ہر حالت میں اپنے آپ سے پردہ کیا

مشتعل چہرے اندھیری رات میں جلتے رہے
بوند پانی کی نہ برسی، شہر نے فاقہ کیا

لوگ دیواروں کے رستے انجمن میں آ گئے
خود بھی رسوا ہو گئے، اَوروں کو بھی رسوا کیا

تیری دنیا دائرہ در دائرہ در دائرہ
دائروں کے دیس میں ہم نے سفر تنہا کیا

رات کو شیشہ دکھا کر شہر کی تصویر لی
دور تک کھڑکی کے رستے چاند کا پیچھا کیا

تم تو اک پتھّر گرا کر مسکرا کر چل دیے
وقت کا ویران سینہ مدّتوں گونجا کیا

آہٹیں درّانہ در آئیں سسکتی ہانپتی
مَیں نے جب سنسان کمرے میں ترا چرچا کیا

رات غم کی داستاں ہم بھی نہ مضطرؔ! سن سکے
بات لمبی ہو گئی تھی، نیند نے غلبہ کیا
۵۹۔۱۹۵۸ء

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں