صفحات

اتوار، 18 ستمبر، 2016

لوحِ دیباچۂ کتابِ سخن

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ13۔15

 لوحِ دیباچۂ کتابِ سخن


١٩٩١ء کے جلسۂ سالانہ انگلستان کے دن تھے۔ میرے محبوب اور مخدوم امام و آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ علی الصبح سیر پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔عاجز کو بھی چند مرتبہ شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس دوران عاجز غلام سے ارشاد فرماتے کہ اپنے اشعار سناؤں۔ نیز فرمایا یہ سب اشعار مجھے لکھ کر دے جاؤ اور باقی اکٹھے کرو اور مجھے بجھواؤ ،مَیں خود چھپواؤں گا۔ حضور رحمہ اللّٰہ کی بے پایاں شفقتوں کا ذکر کرنے لگوں تو بات لمبی ہو جائے گی۔ خلاصہ کلام یہ کہ مَیں نے کچھ دوستوں عزیزوں کی مدد سے بچا کھچا رطب ویابس اکٹھاکیا۔ پھر یوں ہؤا کہ
مشکل کے بعد مشکلیں آتی چلی گئیں
یہ امتحاں کا دور بہت مختصر نہ تھا
افسوس کہ حضور انوررحمہ اللّٰہ کی زندگی میں یہ مجموعہ چھپ نہ سکا۔ الحمدللّٰہ کہ اب یہ اُس کے فضل اور رحم کے ساتھ قدرتِ ثانیہ کے پانچویں مقدس مظہر حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللّٰہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے عہدِ سعادت مہد میں چھپ کر آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
سکول اور کالج کے زمانے کے اساتذہ کرام اور دوست احباب یاد آرہے ہیں جن کی وجہ سے طبیعت شعرگوئی کی طرف مائل ہوئی۔ پرائمری کی تیسری جماعت تھی۔ مرحوم ماسٹر عبدالمجید صاحب فارسی پڑھاتے اور اپنے فارسی اشعار سنایا کرتے تھے۔ ہائی سکول میں مرحوم سید رضا حیدر زیدی لکھنوی کی شفقتوں سے حصہ ملااور اِنھی کی وجہ سے فسانۂ آزاد کی چاروں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ کچھ سمجھ میں آیا کچھ نہ آیا، لیکن اُردو زبان سے ایک شغف ضرور پیدا ہو گیا۔ ١٩٣٥ء میں سید صاحب ہی کے ایما پر میٹرک کے امتحان کے فارم میں اپنا نام محمد علی جناح لکھا۔ اسی زمانے میں یہ نظم ہو گئی ،جو فیروزپور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ زمیندار میں شائع ہوئی۔یہ نظم کسی نہ کسی بہانے ہر آنے والے مہمان کو پڑھنی پڑتی تھی۔
چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، تھا بہت اُجلا سماں
محفلِ انجم سے تھا معمور سارا آسماں
کیا چرندے، کیا پرندے، محو تھے سب خواب میں
واللّٰہ اعلم کس طرح مَیں جاگ اُٹھّا ناگہاں
تھا سماں ایسا کہ جس سے نیند کو آجائے نیند
خامشی کے بحر میں ڈوبا ہؤا تھا سب جہاں
دیکھ کر قدرت خدا کی ہو گیا مَیں بے قرار
ڈوب گہری سوچ میں کہنے لگا زیرِ زباں
چل رہا ہے کارِ قدرت روز وشب بے روک ٹوک
یہ پتا چلتا نہیں کہ منتظم خود ہے کہاں
پاس سے آواز آئی، اس قدر کیوں یاس ہے
بے خبر! جس کا تلاشی تُو ہے تیرے پاس ہے
یہ وہ زمانہ تھا جب ماہوار نہیں تو ہر دوسرے مہینے تخلّص تبدیل کیا جاتا تھا۔ مضطرؔ عارفی برادرم عزیزم راجہ غالب احمدصاحب کی عنایت ہے اوریہ تقسیمِ مُلک کے بعد کی بات ہے۔ عارفی ہمارے جدِّامجد محمد عارف کی نسبت سے ہے۔
کالج کا زمانہ بہت ہنگامہ خیز رہا۔ یہ انگریز دشمنی کا زمانہ تھا۔ جوشؔ اور احسان دانشؔ چھائے ہوئے تھے۔کمیونزم کے نعرے لگ رہے تھے۔ ہم بھی اسی کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ یہ داستان لمبی ہے۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ اسی زمانے میں خوش قسمتی سے حضرت قاضی محمد اسلم مرحوم ومغفور سے ملاقات ہو گئی۔ ١٩٣٩ء کے جلسۂ سالانہ میں چُھپ کر شمولیت کا موقع ملا اور زندگی بھر کی سوچ بدل گئی۔ انھی دنوں میں حسنِ مطلق پر ایک طویل نظم لکھی۔استاذی المکرم صوفی غلام مصطفی تبسم مرحوم نے اس میں ایک تبدیلی فرمائی۔ '' اے ُسست رو محبت ! '' کی بجائے ''اے مست رو محبت!'' کر دیا۔ اور حکماً گورنمنٹ کالج کی بزمِ اقبال کے سالانہ جلسے میں پڑھوائی، حالانکہ کوئی شعری پروگرام نہیں رکھا گیا تھا۔ تین شعر یاد رہ گئے ہیں جو یوں تھے۔
اے جانِ حسنِ مطلق! اے حسنِ آسمانی!
اے مست رو محبت! اے تیز رو جوانی!
مریم کی روح تجھ میں تحلیل ہو رہی ہے
انسانیت کی پھر سے تشکیل ہو رہی ہے
روح الامیں بھی تیری نظروں کو چومتا ہے
سارا جہان تیرے چوگرد گھومتا ہے
١٩٤٠ء میں حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین سیدنا مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی نور اللّٰہ مرقدہ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل ہؤا۔ اس کے بعد کی داستان اسی عشق کی داستان ہے۔ ہر چند کہ بدنام کنندۂ نکونامے چند ہوں،اللّٰہ تعالیٰ کی ستّاری و غفّاری کے کرشمے ہیں کہ مجھ غریب پر میری نا اہلی اور نادانی کے باوصف قدرتِ ثانیہ کے مظہرِثانی، مظہرِ ثالث، مظہرِرابع ( نَوّرَاللّٰہُ مَرْقَدَھُمْ ) اور اب مظہرِخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الطاف کریمانہ کی بے پایاں اور مسلسل بارش ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ۔
پاکستان میں جماعت احمدیہ جن صبرآزما مراحل سے گزری اور گزررہی ہے اور جس طرح جماعت پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا یہاں تک کہ حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللّٰہ تعالیٰ کے لیے عظیم فرائضِ منصبی کی ادائیگی ناممکن بنا دی گئی اور آپؒ کو بادلِ نخواستہ اپنے وطنِ عزیز سے ہجرت کرنی پڑی۔ اگر ان صدمات کی صدائے بازگشت ان اشعار میں سنائی دے تو چنداں تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ شعر دراصل ظاہر کا باطنی عکس ہؤا کرتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ ہو یااظہاروبیان پر قدغن، اشکوں کے چراغ تو جلیں گے۔
یہ مجموعہ جسے یہ فخر حاصل ہے کہ اس کانام عالمی جماعت احمدیہ کے محبوب امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عطا فرمایا ہے وہاں اسے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ جگہ جگہ اسے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اصلاح سے نوازا ہے۔ اس کے علاوہ اسے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ، حضرت حافظ سید مختار احمدشاہجہانپوری اور حضرت شیخ محمداحمدمظہر نے بھی اس کے کچھ حصے سنے اور اصلاح سے نوازا۔
ممکن ہے اس مجموعے میں کہیں کہیں ظاہری قواعد سے ا نحراف نظر آئے مثلاً مصرعے کے درمیان میں ''نہ'' کا دو حرفی استعمال وغیرہ۔اسی طرح اگر اس مجموعے میں کوئی اور خامی نظر آئے تو خاکسار اس کے لیے معذرت خواہ ہے اور اگر کوئی خوبی کی بات دکھائی دے تو قاری کا حسنِ نظر ہے۔
دلی افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سا کلام ضائع ہوگیااور کچھ اینٹی احمدیہ آرڈیننس کی کرم فرمائی کے اندیشے کے پیشِ نظر اس مجموعہ میں شامل نہیں کیاجا سکا۔ عملًا اسے کلّیاتِ محمد علی بھی کہا جا سکتا ہے،اگرچہ یہ میری زندگی میں شائع ہو رہا ہے۔ اگر یہ چندباقی ماندہ منتشر اوراق زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے ہیں تو اس کا سہرا دو نہایت پیاروں اور محترم و مخدوم عزیزوں کے سر ہے۔یعنی محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد سلمہ اللّٰہ تعالیٰ ناظرِ اعلیٰ و امیر مقامی (سابق صدر مجلس انصاراللّٰہ پاکستان)اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد سلمہ اللّٰہ تعالیٰ صدر مجلس انصاراللّٰہ پاکستان۔
خاکسار شکر گزار ہے کہ سارے مسودے کو حضرت صاحبزادی سیدہ امۃالقدوس صاحبہ نے دقّتِ نظر سے پڑھااور مناسب اصلاح فرمائی۔ اسی طرح خاکسار عزیز صابر ظفر کا دِلی شکریہ ادا کرتا ہے کہ اُنھوں نے سارا مسودہ پڑھااور مفید مشوروں اور اصلاح سے نوازا۔
خاکسار عزیزان شاہد احمد سعدی ، اسفند یار منیب، طارق محمودطاہر، مقصود احمد منیب اور نورالجمیل نجمی کا شکر گزار ہے جنھوں نے اس مجموعے کی تیاری کے دوران مختلف مراحل میں معاونت فرمائی اور خاص طور پر عزیزمیر انجم پرویز کا جنھوں نے اوّل سے آخر تک بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اسے اشاعت کے قابل بنایا۔اسی طرح خاکسار عزیزم فرید الرحمن احمد کابھی شکرگزارہے جنھوں نے بڑی محبت اور محنت کے ساتھ اس کتاب کی کمپوزنگ کی۔ الحمد للہ کہ اب یہ بچا کھچا رطب و یابس پیشِ خدمت ہے ؎
سپردم بہ تُو مایۂ خویش را
تُو دانی حسابِ کم و بیش را


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں