صفحات

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2016

135۔ کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ67۔68

135۔ کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں


کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

کوئی رنگ تو دو میرے چہرے کو
پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا

اِک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا
اب خود سے اگر تو شرماؤ تو کیا

تم آس بندھانے والے تھے
اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
پھر تم سے آس لگاؤ توکیا

میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

جب دیکھنے والا کوئی نہیں
بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

اک وہم ہے یہ دنیا اس میں
کچھ کھوؤ تو کیا  اور پاؤ تو کیا

ہے یوں بھی زیا ں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

1970ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں