صفحات

پیر، 3 اکتوبر، 2016

150۔ شکستِ جاں سے سوا بھی ہے کارِفن کیا کیا

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ95۔96

150۔ شکستِ جاں سے سوا بھی ہے کارِفن کیا کیا


شکستِ جاں سے سوا بھی ہے کارِفن کیا کیا
عذاب کھینچ رہا ہے مرا بدن کیا کیا

نہ کوئی ہجر کا دن ہے نہ کوئی وصل کی رات
مگر وہ شخص کہ ہے جانِ انجمن کیا کیا

ادا ہوئی ہے کئی بار ترکِ عشق کی رسم
مگر ہے سر پہ وہی قرضِ جان و تن کیا کیا

نگاہِ بو الہوساں ہائے کیا قیامت ہے
بدل رہے ہیں گل ولالہ پیرہن کیا کیا

گزرگئے تو گزرتے رہے بہت خورشید
جو رنگ لائی تو لائی ہے اک کرن کیا کیا

قریب تھا کہ میں کارِ جنوں سے باز آؤں
کھنچی خیال میں تصویر کوہ کن کیا کیا

1964ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں