صفحات

اتوار، 2 اکتوبر، 2016

154۔ جو دیکھو تو کہاں ماتم نہیں ہے

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ103۔104

154۔ جو دیکھو تو کہاں ماتم نہیں ہے


جو دیکھو تو کہاں ماتم نہیں ہے
مگر دنیا کی رونق کم نہیں ہے

میں روتا ہوں کہ زخم ِ آرزو کو
دعا دیتا ہوا موسم نہیں ہے

نئی آنکھیں نئے ہیں خواب ہیں میرے
مجھے یہ بھی سزا کچھ کم نہیں ہے

ہوں خود اپنی طبعیت سے پریشاں
مزاج ِ دہر تو برہم نہیں ہے

ہوا کہ دوش پہ جلتا دیا ہوں
جو بجھ جاوں تو کوئی غم نہیں ہے

تو پھر میں کیا مری عرض ِ ہنر کیا
صداقت ہی اگر پرچم نہیں ہے

مجھے کچھ زخم ایسے بھی ملے ہیں
کہ جن کا وقت بھی مرہم نہیں ہے

1965ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں