صفحات

ہفتہ، 12 نومبر، 2016

43۔ کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ29۔30

43۔ کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے


کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے
تھے گدا تحفۂ نایاب اٹھاکر لے آئے

کون سی کشتی میں بیٹھیں ترےبندے مولا
اب جو دنیا کوئی سیلاب اٹھا کر لےآئے

ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئےخواب اٹھا کر لے آئے

ایسا ضدی تھا مرا عشق نہ بہلا پھر بھی
لوگ سچ مچ کئی مہتاب اٹھا کر لے آئے

سطحِ ساحل نہ رہی جب کوئی قیمت ان کی
ہم خزانوں کو تہہِ آب اٹھا کر لے آئے

جب ملا حسن بھی ہرجائی  تو اس بزم سے ہم
عشقِ آوارہ کو بیتاب اٹھا کر لے آئے

اس کو کم ظرفی رندانِ گرامی کہیئے
نشّے چھوڑ آئے مئے ناب اٹھا کر لے آئے

انجمن سازیٔ اربابِ ہنر کیا لکھیۓ
ان کو وہ اور اُنھیں احباب اٹھا کر لے آئے

ہم وہ شاعر ہمیں لکھنے لگے جب لوگ تو ہم
گفتگو کے نئے آداب اٹھا کر لے آئے

خواب میں لذّتِ یک خواب ہے دنیا  میری
اور مرے فلسفی اسباب اٹھا کر لے آئے

1978ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں