صفحات

جمعرات، 10 نومبر، 2016

47۔ وہ میرا خواب اگر خواب کے برابر ہے

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ37۔38

47۔ وہ میرا خواب اگر خواب کے برابر ہے


وہ میرا خواب اگر خواب کے برابر ہے
تو یعنی مہر بھی مہتاب کے برابر ہے

وفا کی بات کہاں بات تھی مروّت کی
سو اب یہ جنس بھی نایاب کے برابر ہے

کوئی نہیں ہے کہیں صرف میں ہی میں زندہ
یہ ذائقہ مجھے اسباب کے برابر ہے

خود اپنی قامتِ زیبا ہے میرا اِک اِک یار
ہر اِک رقیب کے احباب کے برابر ہے

طوافِ ذات میں جو شمع تھا وہ پروانہ
بُجھا تو شعلۂ بے تاب کے برابر ہے

جو عشق کھول نہ پائے قبائے ذات کے بند
زمانہ ساز ہے آداب کے برابر ہے

اگر ہوں کچّے گھروندوں میں آدمی آباد
تو ایک ابر بھی سیلاب کے برابر ہے

شکستۂ ناؤ ہو اور لوگ بھی شکستہ ہوں
تو ایک لہر بھی گرداب کے برابر ہے

یہ ساحلوں سے خزانہ چُرانے والے لوگ
سمجھ رہے ہیں تہہِ آب کے برابر ہے

1978ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں