صفحات

بدھ، 9 نومبر، 2016

49۔ پل

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ41۔42

49۔ پل


سب چھاؤں دھوپ کی آنکھیں ہیں کچھ جلی ہوئیں کچھ بجھی ہوئیں
اِدھر اُدھر بس ایک دیا اور چپ چادر سی تنی ہوئی

باطن ظاہر، ظاہر باطن اصل میں ایک ہی لمحہ ہے
کچھ ہونےوالا ہو گزرا کچھ ہونے والا ہونا ہے

عکس بھی زندہ اور ہماری آوازیں بھی زندہ ہیں
اس مرنے سے کیا ہوتا ہے آگے ہم پائندہ ہیں

پیچھے کتنا رستہ چھوڑا آگے کتنا رستہ ہے
سمے میں بہتے آئے ہیں اور سمے میں بہتے رہنا ہے

اس سمے کے چھ پل بیت گئے اس سمے کا اِک پل باقی ہے
بس یہ اِک پل جو بیت گیا تو پھر ہستی آفاقی ہے

1980ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں