صفحات

اتوار، 6 نومبر، 2016

56۔ جو اس نے کیا اسے صلہ دے

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ55۔57

56۔ جو اس نے کیا اسے صلہ دے


جو اُس نے کیا اُسے صلہ دے
مولا مجھے صبر کی جزا دے

یا میرے دیئے کی لو بڑھا دے
یا رات کو صبح سے ملا دے

سچ ہوں تو مجھے امر بنا دے
جھوٹا ہوں تو  نقش سب مٹا دے

یہ قوم عجیب ہو گئی ہے
اس قوم کو خوئے انبیاء دے

اترے گا نہ کوئی آسماں سے
اک آس میں دل مگر صدا دے

بچوں کی طرح یہ لفظ میرے
معبود انہیں بولنا سکھا دے

دکھ دہر کے اپنے نام لکھوں
ہر دکھ مجھے ذات کا مزا دے

اک میرا وجود سن رہا ہے
الہام جو رات کی ہوا دے

مجھ سے مرا کوئی ملنے والا
بچھڑا تو نہیں مگر ملا دے

چہرہ مجھے اپنا دیکھنے کو
اب دستِ ہوس میں آئینہ دے

جس شخص نے عمرِ ہجر کاٹی
اس شخص کو ایک رات کیا دے

دُکھتا ہے بدن کہ پھر ملے وہ
مل جائے تو روح کو دُکھا دے

کیا چیز ہے خواہشِ بدن بھی
ہر بار نیا ہی ذائقہ دے

چھونے میں یہ ڈر کہ مر نہ جاؤں
چھوں لوں تو وہ زندگی سوا دے

1975ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں