صفحات

جمعہ، 4 نومبر، 2016

60۔ دل کی پاتال سرا سے آئی

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ63۔65

60۔ دل کی پاتال سرا سے آئی


دل کی پاتال سرا سے آئی
دولتِ درد دعا سے آئی

ہے یہ ایمان کے اس کی آواز
سلسلہ وار خدا سے آئی

ایسا لگتا ہے کہ اس کی صورت
عالمِ خواب نما سے آئی

چلتے ہیں نقشِ قدم پر اس کے
جس کو رفتا صبا سے آئی

یونہی قامت وہ قیامت نہ ہوا
ہر ادا ایک ادا سے آئی

حسن اس کا تھا قیامت اس پر
وہ قیامت جو حیا سے آئی

ہر صدا آئی پر اس کی آواز
صرف تسلیم و رضا سے آئی

دل وہ آنسو کے پلک سے ٹپکا
غم وہ بارش کے گھٹا سے آئی

اب کے پامال زمینوں پہ بہار
اور ہی آب و ہوا سے آئی

جان بیمار میں اس کے آخر
اس کے ہی دستِ شفا سے آئی

ہم میں اک اور بقا کی صورت
ہم پہ اک اور فنا سے آئی

ہم نے ہر شے کو الگ سے دیکھا
ہم میں یہ بات جدا سے آئی

چاک کرتے تھے گریباں اپنا
روشنی بندِ قبا سے آئی

یہ ادا عشق و وفا کی ہم میں
اک مسیحا کی دعا سے آئی

آئی جو لہر نئی دل میں علیمؔ
اس کی بخشش سے عطا سے آئی

1983ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں