صفحات

بدھ، 2 نومبر، 2016

64۔ مٹی میں تھا خمیر ترے ناز سے اٹھا

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ71۔72

64۔ مٹی میں تھا خمیر ترے ناز سے اٹھا


مٹی میں تھا خمیر ترے ناز سے اٹھا
پھر ہفت آسماں مری پرواز سے اٹھا

انسان ہو  کسی بھی صدی کا کہیں کا ہو
یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا

صبحِ چمن میں ایک یہی آفتاب تھا
اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا

سو کرتبوں سے سے لکھا گیا ایک ایک لفظ
لیکن یہ جب اٹھاکسی اعجاز سے اٹھا

اے شہسوارِ حسن یہ دل ہے یہ میرا دل
یہ تیری سرزمیں ہے قدم ناز سے اٹھا

میں پوچھ لوں کہ کیا ہے میرا جبرو اختیار
یارب یہ مسٔلہ کبھی آغاز سے اٹھا

وہ ابر شبنمی تھا کہ نہلا گیا وجود
میں خواب دیکھتا ہوا الفاظ سے اٹھا

شاعر کی آنکھ کا وہ ستارہ ہوا علیمؔ
قامت میں جو قیامتی انداز سے اٹھا

1980ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں