صفحات

ہفتہ، 10 دسمبر، 2016

واسوخت ۔ بقیہ


تم کو صدمہ ہے تو میری بلا سے مجھے ۔۔۔کیا
رنج کرتے ہوکرو میری بلا سے مجھے ۔۔۔کیا
جان دیتے ہو تو دومیری بلا سے مجھے ۔۔۔کیا
تم جیو یا نہ جیو میری بلا سے مجھے ۔۔۔کیا
نہ رہی ہاں نہ رہی مجھ کو محبت تم کون
اپنادل،اپنی خوشی ،اپنی طبیعت تم کون

ہاں ستم کار ہوں میں اور وفادار ہیں آپ
سچ ہے بدعہد ہوں میں صادق اقرار ہیں آپ
اتنے بے چین مرے واسطے بیکار ہیں آپ
جس سے دل چاہے ملا کیجئے مختار ہیں آپ
دورہی دورمیرے سامنے سے رہیئے گا
میں شکایت جو  کروں  کوئی توپھر کہیئے گا

نفع جس میں نہ ہو اس بات سے کیا حاصل ہے
آپ کو میری شکایات سے کیا حاصل ہے
 بے وفاؤں کی ملاقات سے کیا حاصل ہے
آخر اس حرف حکایات سے کیا حاصل ہے
جب طبیعت نہ کرے میل تو ملنا معلوم
غنچۂ خاطر ناشاد کا کھلنا معلوم

مجھ سے یہ کہہ کے جو اٹھاوہ بت گل رخسار
لاکھ روکا اسے لیکن نہ رکا وہ زنہار
کردیاخار جدائی نے مرا سینہ فگار
آگئی باغ ِ مسرت میں خزاں آخر کار
دامن دل کو گل زخم جگر ملنے لگے
گلشن عشق سے مجھ کوثمر ملنے لگے

چل گیا ہائے غم ورنج والم کا آرا
دل جگر دونوں کے دونوں ہوئے پاراپارا
نہ رہا ضبط وتحمل کا مجھے جب یارا
وحشتِ دل نے طبیعت کو کیا آوارا
گاہ اِدھر پھرنے لگا گاہ اُدھر پھرنے لگ
دل کو تھامے ہوئے بادیدۂ تر پھرنے لگا

بڑھ گیا حدسےسوا ولولۂ جوشِ جنوں
نہ رہے تاب و تحمل، نہ رہے صبروسکوں
کردیا صدمۂ فرقت نے بہت حالِ زبوں
روز کے رنج سے گھبرا گئی جانِ محزوں
خوف کچھ بھی نہ رہا ذلت ورسوائی کا
لے اڑا جوش مجھے بادیہ پیمائی کا

نالہ و آہ سے اک شور مچایا میں نے
کثرت گریہ سے اوروں کو ہنسایا میں نے
حال وارفتگئ عشق دکھایا میں نے
دھجیاں کرکے گریبان اڑایا میں نے
دشتِ غربت کی ہوادل کو پسند آنے لگی
سانس بھی سینہ پُرداغ میں گھبرانے لگی

لائق عبرت و افسوس مرا ڈھنگ ہوا
اک نظر جس نے مجھے دیکھ لیا دنگ ہوا
پاسِ غیرت نہ رہا ننگ سے جی تنگ ہوا
جوشِ وحشت میں عجب حال عجب رنگ ہوا
کبھی بیتاب کبھی اشک فشاں ہوجانا
کبھی دل تھام کے مصروف فغاں ہوجانا

مضطرب غمزدہ حیران پریشان اداس
حسرت آلود نگاہوں سے ٹپکتی ہوئی یاس
چھکے چھوٹے ہوئے امید کی ٹوٹی ہوئی آس
اپنی عزت کا خیال اورنہ کچھ وضع کا پاس
دن تو سب خاک اڑانے میں بسر کردینا
شام سے اشک بہانا تو سحر کردینا

کبھی مسرور کبھی غم سے پریشاں ہونا
کبھی کچھ سوچ کے انگشت بدنداں ہونا
کبھی گریباں کبھی بیساختہ خنداں ہونا
کبھی گھبرا کے رواں سوئے بیاباں ہونا
لب پر افسوس کبھی آہ شرربار کبھی
گلۂ وقت کبھی،شکوۂ دلدارکبھی

دم گریہ کبھی دریا کی طرح بہ جانا
دل کی حالت کبھی بے ساختہ سب کہ جانا
بارِاندوہ جوپڑتا تو اسے سہ جانا
دیکھ کرسوئے فلک یاس سے چپ رہ جانا
تارہاتھوں میں کبھی جیب کبھی دامن کے
اورٹکڑے لیئے پھرنا کبھی پیراہن کے

میرے احباب نے جو پایا یہ بدلا ہوا رنگ
کوئی مغموم ہوا کوئی فسردہ کوئی دنگ
کوئی سمجھانے لگا کوئی دلانے لگا ننگ
کوئی یوں کہنے لگا پا کے مجھے جان سے تنگ
تم کسی کے لیئے کیوں جان فدا کرتےہو
عاقلوں کا تو یہ شیوہ نہیں کیا کرتے ہو


الحذر باعثِ ایذا ومصیبت ہے عشق
الاماں موجب رسوائی وذلت ہے عشق
وجہ بدنامی وناکامی وحسرت ہے عشق
قہر ہے فتنہ ہے آفت ہے قیامت ہے عشق
گھر کے گھر ہوگئے ویران اسی کے ہاتھوں
ایک عالم ہے پریشان اسی کے ہاتھوں

عشق کی طرح کوئی ظالم و خونخوار نہیں
کوئی ایسا ستم ایجاد ودل آزار نہیں
دل دکھانے میں تامل سے زنہار نہیں
جان لینے میں بھی ظالم کو کوئی عار نہیں
یہ وہ پرفن ہے کہ شاکی ہے زمانہ اس کا
وہی عاقل ہے کہا جس نے نہ مانا اس کا

آتشِ ہجر سے وامق کو جلایا اس نے
جانِ عذرا کو شب و روز ستایا اس نے
نل کو ایذائے محبت سے رلایا اس نے
دل دمن کا غم فرقت سے جلایا اس نے
کوہکن کا غم شیریں میں جگر چاک کیا
اورلیلیٰ کے لیئے قیس کو غمناک کیا

خوبرو اس نے کیئے خاک میں پنہاں کتنے
اس نے دل چھین کے مٹی کیئے ارماں کتنے
اس کے ہاتھوں میں ہوئے پامال گلستاں کتنے
مٹ گئے گل بدن وسروخراماں کتنے
نوحہء گلشنِ بلبل ہے اسی کے باعث
فاختہ طوق بہ گردن ہےاسی کے باعث

یہی سفاک مصیبت میں پھنسا دیتا ہے
یہی اک آن میں ہنستوں کو رلا دیتا ہے
یہی معشوق کو عاشق سے چھڑادیتا ہے
یہی عشاق کو پیغامِ قضا دیتا ہے
آدمی بھول کے بھی لے نہ کبھی نام اس کا
غور سے سوچ لے آغاز میں انجام اس کا

اس ستم کیش سے بچتا ہی رہے لیل ونہار
تا بہ مقدورکبھی اس سے نہ رکھئے سروکار
چاہ کیا شے ہے حسینوں کی کسے کہتے ہیں پیار
آنکھ اٹھا کر بھی کوئی ان کو نہ دیکھے زنہار
بے وفا ہوتے ہیں یہ لوگ وفا ان میں نہیں
سب ادائیں ہیں محبت کی ادا ان میں نہیں

خوبرو جتنے ہیں سب جوروجفا کرتے ہیں
چٹکیوں میں دل عاشق کو ملا کرتے ہیں
چلتےپھرتے ستم ایجاد کیا کرتے ہیں
اک نہ اک فتنہ نیا روز بپا کرتے ہیں
رحم کا نام بھی لیتے نہیں یہ تا امکان
ان سے دلجوئی عاشق ہوکبھی کیا امکان

کون معشوق ہے ایسا جو ستم کار نہیں
کون بے رحم نہیں ،کون دل آزارنہیں
کون سفاک نہیں،کون دل آزار نہیں
کون ظالم نہیں،بدخو نہیں ،عیار نہیں
ایک کو بھی تو کبھی رحم نہ کرتے دیکھا
میں نے دیکھا جسے دل لے کے مکرتے دیکھا

جب یہ حالت ہے تو امید ِعنایت کیسی
عشق کیسا کسی معشوق سے الفت کیسی
بے وفاؤں سے وفا کیسی ،مروت کیسی
سب کے سب قابل نفرت ہیں محبت کیسی
بات تو جب ہے کہ کچھ ان سے فرض ہی نہ رہے
اب ہو پرہیز بھی ایسا کہ مرض ہی نہ رہے

غم سے بیتاب نہ ہو اتنے ذرا صبر کرو
نہ کرو نالہ وفریاد وبکا صبر کرو
فائدہ اب قلق ورنج سے کیا صبر کرو
جو مقدور میں لکھا تھا وہ ہوا صبر کرو
اس قدر مضطرب الحال ہوکیوں کیا حاصل
آخر اس گریہ زاری کا نتیجہ،حاصل

کس لیئے ہوتے ہو تم اپنے ہی ہاتھوں مطعون
کیوں کلیجے کا کیے دیتے ہو بے فائدہ خون
بارہا ہم تمہیں سمجھا چکے ہیں یہ مضمون
اب تم پربھی نہ سمجھو توہے پھرتم کو جنون
کسی عاقل سے تو یہ کام نہیں ہونے کا
جان سی چیز وہ اس طرح نہیں کھونے کا

صدمہ و رنج و الم ہجر میں سہنا کیسا
خون زخموں کی طرح آنکھوں سے بہنا کیسا
مضطرب آٹھ پہر درد سے رہنا کیسا
خامشی کس لیئے کچھ منھ سے نہ کہنا کیسا
سرجھکائے ہوئے رونے کی ضرورت آخر
جان بے فائدہ کھونے کی ضرورت آخر

نیک دیدکوتو نہ سمجھے وہی جو ہو نادان
آپ تو فضل الٰہی سے ہیں عاقل انسان
نہیں معلوم دئیے دیتے ہیں پھر کس لئیے جان
سارے عالم میں ہے مشہور کہ جی ہے تو جہان
نہ ہوئے آپ ہی دنیا میں تو کیسی دنیا
کسی کو دنیا میں پسند آتی ہے ایسی دنیا

آپ روکر نہ عزیزوں کو رلاؤ دیکھو
مفت میں اپنی جوانی نہ گنواؤ دیکھو
تم ہمیں اپنی یہ حالت نہ دکھاؤ ،دیکھو
تاکجا رنج والم،ہوش میں آؤ دیکھو
جاں کو جان کے آفت میں نہ ڈالو صاحب
دل بیتاب کو للہ۔۔۔۔۔سنبھالو صاحب

دشت کی سیر کبھی ہو ،کبھی گلگشت چمن
کبھی احباب کی صحبت ہو ،کبھی شغلِ سخن
دورہوجائیں طبیعت سے غم ورجن
نہ رہے سینے میں سوزش نہ رہے دل میں جلن
سوچئے اور کوئی عیش کا  پہلو دل میں
بھول کرآئے نہ یا دبت بدخو دل میں

جبکہ اُس دوست نے اس طرح کیا مجھ سے خطاب
ہوگیااوربھی حال دل بیتاب خراب
سن کے تقریر یہ اس کی نہ رہی جب تجھے تاب
ہوکہ برداشتہ خاطر یہ دیا میں نے جواب
بات کوئی تو ٹھکانے کی کیا کرناصح
کس کو،مجھ کو ہے جنوں اپنی دوا کرناصح

کیوں دئیے جاتاہےبے فائدہ تقریر کوطول
اس سے حاصل نہیں کچھ بھی یہ تمنا ہے فضول
میں کروں ترک ملاقات کی درخواست قبول
مجھ کو اوراس ستم ایجاد سے نفرت،معقول
کبھی دل آ  کے بھی نادان لگا کرتا ہے
کہیں روکے سے یہ طوفان رکا کرتا ہے

ہے یہ بیزار نصیحت سے طبیعت میری
کہ جوذکر آئے تواڑجاتی ہے رنگت میری
کیا شکایت جو سنبھلتی نہیں حالت میری
کیا کیا جائے مقدر میرا قسمت میری
غم ہی کیا اس کو جو کتنی ہےپریشانی میں
پیش آیا وہی لکھا تھا جو پیشانی میں

یہ تو مانا کہ اس الفت کا ہے انجام برا
یہ بھی تسلیم کہ بداچھا ہے بدنام برا
واقعی شوقِ لقائے رخ گلفام برا
بے شک وشبہ خیال بت خودکام برا
مگراتنا تو ذرا ہم کو بتادے کوئی
خط تقدیر کوکس طرح مٹادے کوئی

بندۂ زلفِ سید فام نہ ہونا تھا ہوا
عاشق روئے گل اندام نہ ہونا تھا ہوا
کُوبہ کُوعشق میں بدنام نہ ہونا تھا ہوا
مختصر یہ ہے کہ ناکام نہ ہونا تھا ہوا
الفت ا س بت سے نہ ہوئی تھی مگرہوہی گئی
پارسینےسے میرے اُس کی نظرہوہی گئی

لاکھ چاہا کہ نہ ہو خیر سےشر ہوہی گیا
کوششیں کیں کہ نہ ہو رنج مگرہوہی گیا
میری قسمت میں لکھا تھا جوضررہوہی گیا
مجھ سے آزردہ مرارشکِ قمر ہوہی گیا
شدنی امر میں دیکھی نہیں تاخیر کبھی
آگےتقدیرکےچلتی نہیں تدبیر کبھی

اپنی اپنی عبث احباب سناتے ہیں مجھے
کیا سمجھتے ہیں یہ کیوں چھیڑنے آتے ہیں مجھے
مغزکیوں کھاتے ہیں،کیوں آکےستاتے ہیں مجھے
ہیں بڑے خیر طلب ،کیوں یہ جتاتے ہیں مجھے
مجھ پر ایسی ہی عنایت ہے تو میں درگذرا
یہی اندازِ نصیحت ہے تو میں درگذرا

دیکھتے ہیں میرے احباب سب اس بات کی راہ
درددل سے میرے اُسے غیرت یوسف کی ہو چاہ
واہ اس خام خیالی کی بھی کیا بات ہے واہ
توبہ،لاحول ولاقوۃ اللہ باللہ
بھر چکی پندونصیحت سے طبیعت میری
تادم نزع رہے گی یہی حالت میری

اُس کی فرقت میں جو حالت ہے بتائیں کیونکر
دلِ مضطر کی جو صورت ہے دکھائیں کیونکر
محو ہوں دل سے وہ عشوے وہ ادائیں کیوں کر
بھول جائیں ہمیں اُس بت کی وفائیں کیوں کر
کس طرح داغِ محبت کو مٹادیں دل سے
کس طرح اُس کے تصور کو بھلادیں دل سے

دل میں ہروقت خیال اس کا ہے حسرت اس کی
رات دن پیش نظر رہتی ہے صورت اس کی
جیتے جی دل سے نہ جائے گی محبت اس کی
ساتھ لے جائیں گے ہم قبر میں الفت اس کی
خواہش دید جدا ہوگی نہ اصلا دل سے
نہ مٹے گی نہ مٹے گی یہ تمنا دل سے

خوش رہوں میں کہ پریشان کسی کو کیا کام
نفع ہو یامجھے نقصان کسی کو کیا کام
میں اگر عشق میں دوں جان کسی کو کیا کام
خاک ہوں میرے سب ارمان کسی کوکیا کام
بن کے ناصح مجھے کیوں چھیڑنے آئے کوئی
کیوں مرے دکھتے ہوئے دل کو دکھائے کوئی

اپنی بدنامی ورسوائی کا ڈر ہے کس کو
خواہش نفع کسے،خوفِ ضرر ہے کس کو
نیک نامی ہو یہ منظورنظرہے کس کو
شوق عزت کسے ذلت سے حزر ہے کس کو
کون ہے آبرو ونام ونشاں کا طالب
دل اگر ہے تو اسی الفت ِجاں کا طالب

میری جانب سے جو اس جوش کا دیکھا اظہار
چل دئیے دوست میرے پاس سے اٹھ کر ناچار
جب غم عشق سے باقی نہ رہے صبروقرار
لب پہ آہی گیا بیساختہ یوں شکوۂ یار
بامنِ خستہ جگر آہ چہ کردی ظالم
بامنِ خاک بسرآہ چہ کردی ظالم

ہائے بے رحم تجھے رحم نہ آیا افسوس
جونہ دیکھا تھا وہ غم تونے دکھایا افسوس
مجھ سے جو قول کیا تھا وہ بھلایا افسوس
رنج فرقت کی مصیبت میں پھنسایا افسوس
آہ یہ غیظ وغضب اے ستم آرا مجھ پر
آہ اتنی خفگی،آہ یہ غصا مجھ پر

ہائے میں اور یہ جوروستم اے عہد شکن
ہائے میں اور یہ تکلیف،یہ اندوہ ومحن
ہائے میں اوریہ ایذا،یہ خلش ،یہ الجھن
ہائے میں اور یہ سوزش ،یہ حرارت یہ جلن
آہ ہر لحظہ تپِ غم سے یہ جلنا مجھ کو
آہ یہ دردوقلق ، آہ یہ ایذا مجھ کو

یک بیک ہوگئی کیوں مجھ سے طبیعت بدظن
کیا ہواپھرگئی کیوں مجھ سے پیاری چتون
اوستم پیشہ،جفا دوست مروت دشمن
اوبتِ سنگدل اودل شکن اوعہد شکن
انتہا بھی کوئی،اس جوروجفا کی حد بھی
حدبھی آخرستم ہوش ربا کی حد بھی

غم سہوں ہجر میں ہر آن کہاں تک کب تک
زلف کی طرح پریشان کہاں تک کب تک
پرزے پرزے ہوں گریباں کہاں تک کب تک
منصفی شرط ہے اے جان کہاں تک کب تک
درغمت طعنہ اغیارشنیدن تاچند
ازتقاضائے جنون سینہ دریدن تاچند

ایک دو دن کا جو صدمہ ہو تو جھیلا جائے
روزکا رنج و الم کس سے اٹھایا جائے
اب تو جو سامنے آنا ہے وہ جلد آجائے
میرے اللہ یہ ہر روز کا جھگڑا جائے
دل میں طاقت ستم عشق اٹھانے کی نہیں
جان ہی جائے جو فرصت انہیں آنے کی نہیں

کردیا روز کے صدموں نے طبیعت کا یہ رنگ
فکر ناموس ہی باقی ہے نہ اندیشۂ ننگ
چین لینے نہیں دیتی دل وحشی کی ترنگ
چٹکیاں لیتی ہے رہ رہ کے جگر میں یہ امنگ
آہ یہ کشمکش حسرت وحرماں کب تک
آہ یہ شکوۂ بے مہری جاناں کب تک

سختیاں اب غم ہجراں کی گواراہی نہیں
زندگی تلخ ہے بے موت گذارا ہی نہیں
ضبط کیا خاک ہو جب ضبط کا یارا ہی نہیں
جان کس طرح نہ دوں جب کوئی چارا ہی نہیں
بخوشی ہے مجھے اب جان سے جانا منظور
نہیں لیکن یہ غم ہجر ۔۔۔اٹھانا منظور

یہی باتیں ہوں یہی ذکر ستمگاروں میں
یہی قصے،یہی چرچے ہوں طرحداروں میں
دھوم ہوجائے محبت کی دل آزاروں میں
ہرطرف نام ہو مشہور وفاداروں میں
لے کےاس جوش میں قرطاس وذوات و خامہ
اس طرح اُس بت بے رحم کو لکھا نامہ

اے وہ خورشید مرے دل میں ہے پرتوجس کا
اے وہ مہ داغِ الم جس نے میرے دل کو دیا
اے وہ گل جس میں ذرابھی نہ رہی بوئے وفا
اے وہ مطلوب نہیں جس کو مری کچھ پروا
اے وہ خوش چشم مجھے خون رلایا جس نے
اے وہ سفاک مرے دل کودکھایا جس نے

اے فسوں سازودل آزاروستمگردلبر
اے جفا کارو وفا دشمن وخودسردلبر
باعثِ رنج وغم ِعاشق مضطر دلبر
بانی جوروجفا ؤ ستم وشردلبر
برق وش،ہوش رباآفتِ جانِ عاشق
وجہ افسردگی روح وروانِ عاشق

اے میرے موجب رنج وسبب آہ وبکا
اے مرے تارک لطف وکرم ومہروفا
اے میرے ماہ جبیں ،مہرلقا ء حورادا
زیداللہ بک لطف وحجال حسَنَا
اے مری چشم کی میرے دل وجان کی رونق
میرے دیوار ودروصحن مکاں کی رونق

عرض کرتا ہوں کہ شدت سے ہے شوقِ بیدار
آپ آجائیں توآجائے مرے دل کو قرار
انتہا بھی کوئی بیدادکی اے گل رخسار
دیکھ تو بہرِخدا آکے مری حالتِ زار
سوزغم نے مجھے بیتاب بنا رکھا ہے
دل کو اس آگ نے سیماب بنا رکھا ہے

لطف کھانے  ہی میں کچھ ہے نہ مزہ پینے میں
یہ بھی جینا ہے میری جان کسی جینے میں
شعلے رہ رہ کے بھڑکتے ہیں میرےسینے میں
دنگ رہ جاتا ہوں منھ دیکھ کے آئینے میں
حیرت آجاتی ہے اب دیکھ کے حالت اپنی
اپنی آنکھوں میں سماتی نہیں صورت اپنی

قابل رحم ہے اب حال پریشاں میرا
میری صورت سے عیاں ہے غم پنہاں میرا
تنگ ہے دستِ جنوں سے دلِ نالاں میرا
مل گیا ہے میرے دامن سے گریباں میرا
مضطرب ہے دل بیتاب کو آرام نہیں
اب بجز جامہ دری اورکوئی کام نہیں

بیقراری ہی میں کٹتی ہے میری شام وپگاہ
کردیا ہے غمِ ہجراں نے مرا حال تباہ
کیا کہوں شغل ہے کس بات کا اے غیرتِ ماہ
اشک باری ہے کبھی اور کبھی نالۂو آہ
شام ہوتی ہے یہیں،یوں ہی سحر ہوتی ہے
عمر میری اسی حالت میں بسر ہوتی ہے

دمبدم مشغلہ نوحہ گری بڑھتا ہے
ساتھ ہی ساتھ اثر بے اثری بڑھتا ہے
اب تو اس زور سے دردِ جگری بڑھتا ہے
جنگ کے واسطے جس طرح جری بڑھتا ہے
اشک بہتے ہوئے آنکھوں سے چلے آتے ہیں
دل میں اک ہوک سی اُٹھتی ہے نکل جاتے ہیں

اب نہ ہے مجمع ا حباب نہ وہ سیر چمن
وہ امنگیں ہیں طبیعت میں ،نہ شوخی کا چلن
نہ گریباں سلامت ہے نہ ثابت دامن
لب پہ اے جان رہا کرتے ہیں وحشت کے سخن
کچھ عجب طرح کا دل کو خفقاں رہتا ہے
ایک دریا ہے کہ آنکھوں سے رواں رہتا ہے

میں ترے واسطے اپنوں سے ہوابیگانہ
صحبتیں ہیں نہ وہ اگلی سی نہ وہ یارانہ
اب ہیں مخلوق کے لب اورمرا افسانہ
کوئی وحشی مجھے کہتا ہے کوئی دیوانہ
تنکے چن چن کے مری جان بسرکرتا ہوں
تارے گن گن کے شبِ غم میں سحر کرتا ہوں

دل غم ہجر سے بیتاب ہے اک رشکِ قمر
صفتِ ماہی بے آب تڑپتا ہے جگر
نالہ وآہ سے ملتی نہیں فرصت دم بھر
بے قراری کے سوا کام نہیں شام وسحر
کیوں نہ ہو جینے سے بیزارتری فرقت میں
چین ملتا نہیں زنہار تری فرقت میں

 ہے یہ وحشت مجھے اے جانِ جہاں تیرے بغیر
مثل صحرا نظر آتا ہے مکاں تیرے بغیر
آئے دل میں مرے کیا تاب وتواں تیرے بغیر
روح بے چین ہے آرام کہاں تیرے بغیر
میں ترے واسطے سہتا ہوں  یہ غم ہائے غضب
تجھ کو پروا نہیں کچھ ہائے ستم ہائے غضب

یہ تغافل،یہ جفا اے ستم آرا کب تک
گردشوں میں مری قسمت کا ستارا کب تک
ہائے یہ صدمۂ دوری ہو گوارا کب تک
کب تک اے آفتِ جاں ضبط کا یارا کب تک
دردل این آتش جاں سوزنہفتن تاکے
سوختم سوختم این سوزنہ گفتن تاکے

پی لیا خونِ غمِ ہجرنے رخسار ہیں زرد
ہاتھ ہیں سینےپہ،اشک آنکھوں میں لب ہیں مرے سرد
ہرطرف سے مجھے گھیرے ہوئے ہیں صدمہ ودرد
جم گئی آئینہ دل میں غم ورنج کی گرد
جل رہا ہے تپِ فرقت سے تن زارمرا
لب پہ آتا ہے کلیجہ دم گفتار مرا

اب نہیں صدمہ وغم کا متحمل تن زار
استخواں تک میں اثر کرگئی ظالم تپ حار
لب پہ آہیں ہیں تو آنکھوں سے نکلتے ہیں شرار
خاک سر پر ہے تو ہاتھوں میں گریباں کے تار
جل رہا ہے تپ ِفرقت سے تنِ زارمرا
منھ پر آتا ہے کلیجہ دم گفتار مرا

تپِ فرقت کی وہ شدت کہ الٰہی توبہ
سوزِ غم کی وہ حرار ت کہ الٰہی توبہ
ناتوانی کی وہ قو ت کہ الٰہی توبہ
اس قد زور نحافت کہ الٰہی توبہ
آہ کو سینے سے آنا ہے گراں ہونٹوں تک
سوجگہ بیٹھ کے آتی ہے فغاں ہونٹوں تک

ایک تو زار نحیف ا ورپھر اس پریہ غضب
رات دن صدمۂ وغم ،آٹھ پہر رنج وتعب
دردِ دل ،سوزِجگر،زردی رخ،خشکی لب
زیست کی شکل کہاں ،موت کے آثار ہیں سب
اوربھی اس کے علاوہ ہیں غم ورنج و محن
الحذر نرغہ ء اعدا میں ہے ،تنہا دلِ من

اس کسی سے مجھے دنیا میں سروکار کہاں
تیرا ہی نام ہے ہروقت جو ہے وردِزباں
کس طرح غیر کو دیکھے مری چشمِ حیراں
روبروتیری ہی تصویر ہے اے آفتِ جاں
پتلیاں مجھ کو دکھاتی ہیں تماشا تیرا
پھررہاہے مری آنکھوں میں سراپا تیرا

جاگزیں دل میں ہے پیشانی انور کا خیال
غم نے اس بدر کے کاہیدہ کیا مثلِ بلال
ہوگیا گیسوئے پرخم کے تصور میں یہ حال
کہ مری زیست بھی میرے لئے اب تو ہے وبال
چٹکیاں لیتی ہے یوں جنبشِ ابرودل میں
جس طرح نیش زنی کرتے ہوں بچھو دل میں

ہےتصور میں جو وہ آنکھ ،وہ شوخیِ نظر
اسی باعث سے رہا کرتا ہے دل زیروزبر
یادبینی نے المناک کیا اے دلبر
دھیان میں گوش ودہن کے ہے یہ حال آٹھ پہر
میں کوئی بات نہ سنتا ہوں نہ کچھ کہتا ہوں
منھ چھپائے ہوئے چپ چاپ پڑارہتا ہوں

محو آئینہ رخسار ہوں حیراں ہوں میں
اپنے ہی حال پہ انگشت بدنداں ہوں میں
ہمہ تن آرزو حسرت وارماں ہوں میں
فکر لعل ِلب جان بخش میں بے جاں ہوں میں
یاد دندانِ مصفا کی بڑی رہتی ہے
موتیوں سے نظر ِشوق لڑی رہتی ہے

دورہے میری نگاہوں سے جو وہ سیب ذقن
گھیرے رہتے ہیں مجھے ہر گھڑی آسیب محن
بھرگئی سر میں جنون خیز ہوائے گلشن
 ٹکڑے ٹکڑے ہے گریباں مراتادامن
جوتِ رنگیں کا مجھے دھیاں جو آجاتا ہے
خون پہروں دل ناشاد کو رلواتا ہے

یاد میں سینۂ شفاف کی اے رشکِ قمر
کفِ افسوس ملا کرتا ہوں میں رورو کر
شکم صاف کا رہتا ہےخیال آٹھ پہر
کس طرح پھر نہ ہوں آئینہ کی صورت ششدر
دمبدم دل کو مرے یادکمر رہتی ہے
اس لیئے راہ عدم پیشِ نظر رہتی ہے

سربہ زانو مجھے زانو کے تصور نے کیا
مل رہی ہے دل بیتاب کو یاد کفِ پا
کسی کروٹ کسی پہلونہیں آرام ذرا
دمبدم صدمہ ء دوری کی ترقی ہے سدا
کیوں نہ پھر جان سے تنگ اے ستم آراہوں میں
سینکڑوں رنج والم ہیں تن تنہا ہوں میں

ختم کرتا ہوں یہ تحریر بصدرنج و الم
غیر ممکن ہے کہ ہو ختم مراقصہء غم
اب نگارش کی نہیں تاب ترے سرکی قسم
تھرتھراتے ہیں نحافت سے مرے دست وقلم
ریخت خوں از لب تقدیروشکایت باقیست
قلم نوک ِ زباں سوخت و حکایت باقیست

میں جو یہ نامہ ء غم بھیج چکا جانبِ یار
ہوگئی اور بھی جینے سے طبیعت بیزار
نہ رہی ضبطِ غم ہجر کی طاقت زنہار
نہ ہوا مجھ سے تحمل نہ ہوا آخرکار
پھرتورنگت مرے چہرے کی ہوا ہونے لگی
دمبدم حالت دل ہوشربا ہونے لگی

اک پہر بھی نہیں گذراتھا کہ دل گھبرایا
تھرتھراہٹ سی بدن میں ہوئی کانپے اعضا
اوریہ شدت ِ تکلیف میں معلوم ہوا
منھ کو آتا ہے کوئی دم میں کلیجہ میرا
کشش روح تشنج سے سوا ہونے لگی
میرے قالب سے مری جان جدا ہونے لگی

میرے احباب کو اس امر کی پہنچی جو خبر
بے تامل مرے گھر آگئے سب گھبرا کر
جس کی ان سب میں زیادہ تھی عنایت کی نظر
اُس نے آہستہ سے کہا مجھ سے یہ بادیدۂ تر
سرسے پاتک ہے یہ چھائی ہوئی حسرت کیسی
کہیئے کیسا ہے مزاج اورطبیعت کیسی

یہ جواب اس کودیا میں نے بہ یاس وحرماں
ہائے کیا پوچھتے ہو مجھ سے عیاں راچہ بیاں
اشک آنکھوں میں ،لب خشک پرآہ سوزاں
زردرخسار کی رنگت صفتِ برگ خزاں
ناتوانی سے دلِ زار کی حالت ابتر
جانِ محزوں دلِ بیمارکی حالت ابتر

پھر رہی ہیں پئے نظارۂ دلبر آنکھیں
یہ سبب ہے جو جھپکتی نہیں دم بھر آنکھیں
متصل اشک شب وروزبہا کر آنکھیں
ہوگئی ہیں غم جاناں میں سمندر آنکھیں
دل یہ کہتا ہے کہ دلبرسے ملادو ہم کو
اورآنکھوں کو یہ ضدہے کہ دکھادوہم کو

اس طرف حسرت دیدار بڑی مشکل ہے
اُس طرف نفرت وانکار بڑی مشکل ہے
اس طرف موت کے آثار بڑی مشکل ہے
اُس طرف ہے وہی رفتار بڑی مشکل ہے
ازغمش سربگریبا تم وتدبیرے نیست
خونِ دل رفتہ زدامانم وتدبیرے رفتہ

غم دنیا ہے نہ اندیشہء عقبیٰ دل میں
نہ طلب ہے نہ کسی بات کی پروا دل میں
ہے فقط خواہشِ دیداردل آرادل میں
یہی حسرت ہے،یہی ایک تمنا دل میں
آرزو ہے یہی مشتاق اسی کا میں ہوں
جلوہ افروزہوں وہ،دیکھنے والا میں ہوں

اک ستمگر کا طلبگار ہمارا دل ہے
محو یادِ بت دلدار ہمارا دل ہے
رنج فرقت میں گرفتار ہمارا دل ہے
اس لیئے جینے سے بیزارہمارا دل ہے
موت آجائے تو یہ ساری مصیبت جائے
گھر سے کمبخت بلائے شبِ فرقت جائے

گومرے سینے میں اب زیست کا دم کوئی نہیں
ہمنشیں  اس کا بھی لیکن مجھے غم کوئی نہیں
ہاں سوا اس کے مجھے رنج والم کوئی نہیں
پاس اس وقت مرے ہائے ستم کوئی نہیں
دل طلبگار ہے جس کا وہ جدا ہے مجھ سے
جان قربان ہے جس پر وہ خفا ہے مجھ سے

مجھ کو ہردم ہے اُسی ذوق ِملاقات کی یاد
نازواندازکی ایما واشارات کی یاد
یوں تو تڑپاتی ہے سفاک کی ہربات کی یاد
اورپھر خاص کرالطاف وعنایات کی یاد
ہرشب انداز ہم آغوشی اویادکنم
خویش راتنگ بروگیرم وفریاد کنم

ہائے وہ اس کی محبت وہ عنایات وہ پیار
نازوانداز سے وہ مہر ووفاکا اظہار
ڈال دینا مری گردن میں وہ بانہیں ہربار
اورہنس ہنس کے پھر اقرارکہ تم ہو مختار
پھیرنا چاہو جدھرصورت پرکار پھریں
حکم دیدو جو ہمیں اس سے نہ زنہار پھریں

یادآئیں جو یہ غمزے،یہ ادائیں مجھ کو
زیست سے کیوں متنفر نہ بنائیں مجھ کو
کیوں نہ دیں رنج مجھے کیوں نہ ستائیں مجھ کو
کیوں نہ بے چین کریں،کیوں نہ رلائیں مجھ کو
کیوں نہ رہ رہ کے مجھے نوبت فریاد آئے
کیوں نہ کھینچ کھینچ کے لبوں پردل ناشادآئے

اب مجھے تاب تحمل نہیں اصلا باقی
دل میں کچھ صدمہ ء فرقت نے نہ چھوڑا باقی
خردوہوش کے جانے سے رہا کیا باقی
ہاں فقط سیرعدم کی ہے تمنا باقی
وقت آنست کزیں دارفنا درگذریم
کارواں رفتہ ومانیز براہ سفریم

لائق دید نحافت سے تنِ زار نہیں
دست و پا ضعف سے جنبش کے روادار نہیں
دم رکا جاتا ہے اب قوتِ گفتار نہیں
مختصر یہ ہے نہیں زیست کے آثار نہیں
طائرجاں قفس جسم میں گھبراتا ہے
کھل چکے ہیں پرپروازاڑا جاتا ہے

شکرصدشکرکوئی مجھ سے برائی نہ ہوئی
جو ہوئی وہ اُسی جانب سے ہر آئینہ ہوئی
جائے حیرت ہے اگر اب بھی صفائی نہ ہوئی
کیونکہ حالت جو تھی میری وہ سب آئینہ ہوئی
کھل گیا خوب کہ کتنا انہیں چاہا میں نے
عہد جو اُن سے کیا تھا وہ نباہا میں نے

کررہا تھا یہی باتیں کہ مرادم الجھا
سنسناہٹ سی بدن میں ہوئی کانپے اعضا
اوریہ شدت تکلیف میں معلوم ہوا
کہ اب آتا ہے مرے منھ کو کلیجہ میرا
مردنی چھا گئی اک بارجھپک کر آنکھیں
ہائے پتھرا گئیں دم بھر میں تَرآنکھیں

دیکھ کر غش مجھے سرپیٹ لیایاروں نے
پیرہن چاک کیا غم کے گفتاروں نے
کی بہت آہ وبکا جب مرے غمخواروں میں
ایک عاقل کا سنا قول یہ بیچاروں نے
یادرکھوکہ جو یہ شوروبکاکرتے ہو
تم یہ اچھا نہیں کرتے ہوں براکرتےہو

اب ضرورت تو ہے اس کی کہ طبیبوں کو بلاؤ
ڈاکٹر کو بھی اسی دم کوئی جا کر لے آؤ
فائدہ ہی نہیں جب اس سے تو کیوں شورمچاؤ
نہ پریشان ہو للہ نہ اتنا گھبراؤ
جوکیا جائے کروجلد نہ تاخیر کرو
جس سے بیمار کو صحت ہو وہ تدبیر کرو

اُس نے جس کام کو پھر جس سے کہا کرلایا
جس قدر چاہیئے تھا اس سےسواکرلایا
ڈاکٹر کو کوئی بگھی میں بیٹھا کرلایا
کوئی ہشیارطبیبوں کو بھی جاکرلایا
کوئی حیران تھا اندر کوئی مضطرباہر
دوست گھبرائے ہوئے پھرتے تھے اندرباہر

آکے تشخیص کی ڈالی جو اطیانے نظر
پہلے سوچا کیے کچھ دیراٹھائے ہوئے سر
منکشف ہوگئی جب ساری حقیقت اُن پر
ایک نے ایک کو دیکھا متحیر ہوکر
مشورہ کرکے پھرآپس میں دواکرنے لگے
ذہن میں آئی جوتدبیرِشفا کرنے لگے

حسب دلخواہ دواکا جو اثر دیکھ لیا
مطمئن ہوکے یہ ہمرازسےپھرسب نے کہا
کیجئے شکرکہ باقی نہ رہا کچھ کھٹکا
اب یقیناً کوئی دم میں ہوئی جاتی ہےشفا
ہوگئی خیر کہ تاخیرنہ ہونے پائی
جس کی دہشت تھی وہ تاثیر نہ ہونے پائی

پھرکہا چپکے سے مجمع نہ کروہوش میں آؤ
اب یہاں سے کسی ترکیب سے سب کو لے جاؤ
دیکھنے کے لیئے جو آئے الگ اُس کوبٹھاؤ
وقت نازک ہے ذرا عقل کو بھی کام میں لاؤ
ایسی بے سمجھی کا انجام براہوتا ہے
پھرجوپچھتائےبھی انسان کو کیا ہوتا ہے

میرے ہمدم نے طبیبوں کا جویہ قول سنا
اوراحباب کو بھی اس سے خبردارکیا
چونکہ یہ رائے حقیقت میں تھی عمدہ بجا
اس لیئے کی نہ کسی ایک نے بھی چون وچرا
اُٹھ کے سب چل دئیے فورًا وہ مکان چھوڑ دیا
اُسی ہمراز کو میرا۔۔۔نگراں چھوڑ دیا

فکرصحت میں تھے مصروف ادھرسب احباب
اوراُدھرہوگئے خط پڑھ کےوہ فورًا بیتاب
کردیا گرمئ الفت نے دل ایسا سیماب
کہ چلے آئے مرے پاس وہ باچشم پرآب
خط کے مضمون سے احوال مطابق پاکر
دونوں ہاتھوں سے جگرتھام لیا گھبراکر

کردیا میری تڑپ نے انہیں بےتاب وتواں
رنگ اڑا چہرے کا،آنکھوں سے ہوئے اشک رواں
دل میں باقی نہ رہاحوصلہ ضبطِ فغاں
بےقراری میں یہ کہہ کہہ کےہوئے وہ گریاں
ایسا دل رکھتے ہو اللہ ہم آگاہ نہ تھے
اس مصیبت میں ہو تم آہ ہم آگاہ نہ تھے

تم کو اتنی مری الفت ہے یہ معلوم نہ تھا
اس قدر جوشِ محبت ہے یہ معلوم نہ تھا
اتنی بےچین طبیعت ہے یہ معلوم نہ تھا
زندگی سے تمہیں نفرت ہے یہ معلوم نہ تھا
ضبط کی تاب نہ لاؤگےیہ کیا جانتے تھے
آہ تم جان سے جاؤگےیہ کیا جانتےتھے

کوئی بیتاب ہے تم ایک نظر دیکھو تو
کوئی ہے خستہ جگرخاک بسردیکھو تو
منتیں کرتے ہیں للہ ادھر دیکھو تو
نہیں کرتے نہ کروبات مگردیکھو تو
مختصر اب تو اسی پر ہے تسلی دل کی
دیکھو لو پیارسے ہوجائے تشفی دل کی

ہم رضامندہیں ،ناراض کہاں ہیں دیکھو
ہم تو اب خوش ہیں خفاتم سے کہاں ہیں ،دیکھو
غم واندوہ سے بے تاب وتواں ہیں دیکھو
اشک حسرت ہیں کہ آنکھوں سے رواں ہیں دیکھو
خون روتی ہیں محبت میں ہماری آنکھیں
آئی جاتی ہیں دم گریہ وزاری آنکھیں

لوخفاہوتے ہیں ہم اُٹھ کے منالو ہم کو
اپنے پہلو میں محبت سے بیٹھا لو ہم کو
ضبط کی تاب نہیں ہم میں سنبھالوہم کو
پیار کرلوہمیں،چھاتی سے لگا لو ہم کو
پھروہی لطف ہوں پھرہوں وہی سازآپس میں
پھراسی طرح کے ہوں رازونیاز آپس میں

کیا تمہیں پہلے یہی چاہ یہی الفت تھی
کیا یہی پیار،یہی انس یہی رغبت تھی
کیا یہی تم کو محبت تھی،یہی حالت تھی
کیا یہی رنگ،یہی حال ،یہی حالت تھی
ہم یہ کہتے ہیں کہ کچھ ہم سے کہو اورسنو
تم مگر بات بھی کرتے نہیں لواورسنو

کررہا تھا یونہی افسوس ابھی وہ غیرتِ ماہ
کہ مرے حال پہ اتنے میں ہوا فضلِ اللہ
ہوش قائم ہوئے،جاتی رہی غفلت ناگاہ
روپا اصلاح ہواپھرتو مرا حال تباہ
قلق وکرب سے تھی دل کی جو حالت نہ رہی
جان پر جس سے بنی تھی وہ مصیبت نہ رہی

ہوش آتے ہی مگر رنگِ طبیعت بدلا
وہ مرا بھولنے والا مجھے پھر یاد آیا
پھر مجھے رنج وغم ہجر نے بے چین کیا
پھر لبوں پرمرے آنے لگی فریادوبکا
پھر مرے ہاتھ بڑھے میرے گریباں کی طرف
پھر ہو اپاؤوں کا قصوربیاباں کی طرف

پھر ہوا آرزوئے دید کا آزارمجھے
پھرستانے لگی یادِ رخِ دلدار مجھے
پھرکیا خنجر الفت نے دل افگار مجھے
پھر نظر آنے لگے موت کے آثار مجھے
پھر جدا جاں سے مری تاب وتواں ہونے لگی
پھر اداسی مرے چہرے سے عیاں ہونے لگی

پھر ہوئے سر میں خیالات پریشاں پیدا
پھر ہوا سینے میں سوزِ تپِ ہجراں پیدا
پھرہوئی آرزوئے سیربیاباں پیدا
پھروہی شوق،وہی حسرت وارماں پیدا
پھرہوئی خاک اڑانے کی تمنا مجھ کو
پھروہی جوشِ جنون، پھروہی سودا مجھ کو

ہوش آیا تو ستاتا ہوا آیا مجھ کو
ہوش نے آکے عجب رنگ دکھایا مجھ کو
میرے ہمراز نے بیتاب جو پایا مجھ کو
ہنس کے یہ مژدۂ جاں بخش سنایا مجھ کو
آپ مشتاق ہیں جن کے وہ یہ کیا بیٹھے ہیں
نامۂ شوق پہنچتے ہی تو آبیٹھے ہیں

ظلم سے اپنے پشیماں ہیں شرماتے ہیں
ہاتھ ملتے ہیں،پریشان ہیں پچھتاتے ہیں
آپ کے واسطے بے چین ہیں گھبراتے ہیں
اب کریں گے نہ کبھی ظلم قسم کھاتے ہیں
بہ دل وجاں یہی پیمان لیئے بیٹھے ہیں
دیکھئے ہاتھ میں قرآن لیئے بیٹھے ہیں

میں نے ہمراز سے یہ سن کے اٹھائی جو نظر
دیکھتا کیا ہوں کہ بیٹھے ہیں وہ بادیدۂ تر
چار آنکھیں جو ہوئیں بول اٹھے گھبرا کر
اب خدا کے لیئے زنہار نہ ہونا مضطر
دیکھو دیکھو کہیں پھر حال نہ ابتر ہوجائے
پھرطبیعت نہ کہیں آپ سے باہر ہوجائے

واقعی ہے تمہیں ہم سے وہ محبت وہ پیار
سارے عالم میں نہیں جس کی ضمیر اب زنہار
تم نے جھیلے ہیں وہ صدمے وہ سہے ہیں آزار
جس کی گنتی ہے کوئی اورنہ حد ہے نہ شمار
آج تم سا کوئی دنیا میں وفادار نہیں
جاں نثارایسا نہیں ہے کوئی زنہار نہیں

آج کل ہے یہ محبت،یہ مروت کس کو
اس قدر انس کسے اس قدر الفت کس کو
جو رہہ سہہ کے بھی چپ رہنے کی عادت کس کو
صبر کی تاب کسے ضبط کی طاقت کس کو
کس کو اس درجہ تحمل ہے دل آزاری کا
کس کو رہتا ہے خیال اتنا وفاداری کا

سچ یہ ہے تم نے بڑی سخت اٹھائی تکلیف
سارے عالم سے کڑی،سب سے سوائی تکلیف
عشق میں یوں تو اٹھاتی ہے خدائی تکلیف
لیکن ایسی توکسی نے بھی نہ پائی تکلیف
کون اس طرح کسی کے لیئے غم سہتا ہے
کون ایسا ہے کسے پاسِ وفا رہتا ہے

بس جو ہونا تھا ہوا اب یہ الم دورکرو
دل جو بیتاب ہے غم سے اسے مسرور کرو
التجا کرتے ہیں جو ہم اے منظور کرو
پیارجیسا ہمیں کرتے تھے بدستور کرو
ہم بھی مانیں گے اسے تم جو کہو گے ہم سے
اب کسی بات میں ناخوش نہ رہو گے ہم سے

سن کے اس شوخ سے یہ مژ دۂراحت افزا
ہوگیا خوش محبت سے عجب حال مرا
میں نے لیکن نہ کیا رازدل اُس پر افشا
بلکہ ظاہر میں بناوٹ سے بگڑ کر یہ کہا
کس کو عاشق،کسے پابندِ وفا کہتے ہو
پھرکہو میں ابھی سمجھا نہیں کیا کہتےہو

چشم امید ہے اب آپ سے سرکارکسے
شوقِ دیدارکسے،خواہشِ گفتار کسے
آپ سمجھے ہوئے ہیں اپنا طلبگار کسے
آپ سے انس کسے،عشق کسے،پیارکسے
کس کو سمجھاتے ہوئے دیتے ہو دلاسا کس کو
آپ سے ملنے کی باقی ہے تمنا کس کو

کون ہے ہجر کا بیمار بتاؤ تو سہی
کون ہے زیست سے بیزار بتاؤ تو سہی
کس کو ہے عشق کا آزار بتاؤ تو سہی
کس کو کہتے ہیں طلبگار بتاؤ تو سہی
رنج پررنج جدائی میں اٹھائے کس نے
داغ پر داغ غمِ ہجر میں کھائے کس نے

اشک حسرت سے بھرا ِدیدۂ تر کس کا ہے
دل پریشان ہے،بیتاب جگر کس کا ہے
کس لیئے آپ بتاتے نہیں ڈرکس کا ہے
ذکرا س وقت یہ اے رشکِ قمر کس کا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتاہمیں سمجھائیے تو
تذکرہ کس کا یہ فرمایا ہے فرمائیے تو

یہ حسرت ،یہی ارمان وتمنا ہے مجھے
وہ نہ سمجھیں مجھے جو آپ نے سمجھا ہےمجھے
آپ کیاچیز ہیں،کیا آپ کی پروا ہے مجھے
سوپریزاد ہیں موجود،کمی کیا ہے مجھے
ہاں مگرآپ نہ پائیں گے طلبگار ایسا
نہ ملے گا نہ ملے گا کوئی زنہار ایسا

اب خدا کے لیئے مجھ کو نہ ستاؤ جاؤ
میرے دکھتے ہوئے دل کو نہ دکھاؤ جاؤ
اس قدر مہر ومحبت نہ جتاؤ جاؤ
دل ہے بیزارمرے پاس سے جاؤ جاؤ
جاؤ مجھ سے نہ اڑوجان گیا ہوں تم کو
کتنے پانی میں ہو پہچان گیا ہوں تم کو

تم کو الفت نہیں ہم سے تو ہمیں بھی نہیں چاہ
جاؤ وہ راہ تمہاری توہماری  ہے،یہ راہ
ہم کسی حال میں دب کر نہ رہیں گے واللہ
تم کو اک مرتبہ نفرت،ہمیں سوبار اکراہ
بدبلا تم ہو تو آفت کے بلا کش ہم بھی
برق وش تم ہو تو پرکالۂ آتش ہم بھی

مجھ کو تم سے محبت اجی لاحول ولا
میں کروں ملنے کی رغبت اجی لا حول ولا
ہوچکی صاف کدورت  اجی لا حول ولا
اب تو ہے شکل سے نفرت اجی لا حول ولا
صاف کہتا ہوں ملاقات کے قابل نہیں تم
سوکی اک بات ہے یہ بات کے قابل نہیں تم

اب مجھے تم سے وہ رغبت نہیں نفرت نفرت
اب وہ اگلی سی طبیعت نہیں نفرت نفرت
اب مرے دل کی وہ حالت نہیں نفرت نفرت
اب وہ الفت وہ محبت نہیں نفرت نفرت
اب تو حد ہوگئی اب تو نہ ستاؤ مجھ کو
اپنی آواز ِمبارک نہ سناؤ مجھ کو

آپ شعلہ ہیں تو آتش سے سوا ہوں میں بھی
یاد رکھیئے تپ ِہجراں میں جلا ہوں میں بھی
ایک ہی قول کا پورا بخدا ہوں میں بھی
جائیے آپ خفا ہیں توخفاہوں میں بھی
نہیں کہتا کہ یہ کام آپ نے معیوب کیا
پھیرلی مجھ سے عنایت کی نظرخوب کیا

کیئے بے وجہ ہزاروں ہی ستم تم ہووہی
یک قلم بھول گئےقول وقسم تم ہو وہی
خوب معلوم ہے کیوں دیتے ہودم تم ہو وہی
آنے والے نہیں اب دھوکے میں ہم تم ہو وہی
کیں وہ باتیں کہ کلیجے میں چبھوئے کانٹے
میرے حق میں توغضب خوب ہی بوئے کانٹے

آپ کا روٹھ کے جانا ہے ابھی یاد مجھے
وہ بلانے سے نہ آنا ہے ابھی یاد مجھے
دمبدم اشک بہانا ہے ابھی یاد مجھے
قصہ اپنا وہ پرانا ہے ابھی یاد مجھے
مجھ کو سب یاد ہے جوطرز تھی غمخواری کی
بھول سکتا نہیں اندازدل آزاری کا

رنج پررنج دیئے تم نے ستایا تم نے
کیں کچھ اس درجہ جفائیں کہ رُلایا تم نے
تختہ مشق ستم ہم کو بنایا تم نے
روزبداپنی جدائی کادکھایا تم نے
اب ہمیں تم سے کدورت نہ رہے کیا ممکن
صاف ہوجائے پھر آئینہ دل ناممکن

بے سبب ہم ستم وجورجفادیکھ چکے
تم میں دیکھی نہ مروت بخدا دیکھ چکے
پیارکا،لطف ومحبت کا مزا دیکھ چکے
بلکہ ہم اپنے مقدر کا لکھا دیکھ چکے
اس قدر تم نے ستایا ہے کہ جی جانتا ہے
ہم نے صدمہ وہ اٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے

خوب آزاردئیے ،خوب جفا کی تم نے
خوب دردعاشق کی دوا کی تم نے
ظلم کرنے کی جگہ خوب ہی تاکی تم نے
واہ واشرط وفا خوب ادا کی تم نے
خوب ہی تم نے مرے ساتھ نباہی الفت
تم کو بھی کس قدراخلاص ہے کیا ہی الفت

آزما کرتجھے اے بت بخدا دیکھ لیا
خوب پہچان لیا،جان لیا،دیکھ لیا
آدمیت نہیں اے حورلقادیکھ لیا
گل عارض میں نہیں بوئے وفا دیکھ لیا
حال اپنا تجھے ہر چند سنایا نہ سنا
بیوفا تجھ ساتومیں نے کہیں دیکھا نہ سنا

خیر اب شکوۂ ایذاوستم سےچھوٹے
غم سے آزادہوئے قیدِ الم سے چھوٹے
جوخرابی کے تھے اطواروہ ہم سے چھوٹے
دغدغہ دورہوا فکرِ الم سے چھوٹے
تم کوپروا نہ رہی مجھ کوبھی مطلب نہ رہا
پہلے باہم جوسروکارتھاوہ اب نہ رہا

رسن ودارہیں زلف وقدبالا مجھ کو
خلشِ خاربہار رخ ِزیبا مجھ کو
زہرہربات تری اے ستم آرامجھ کو
گرمئ حسن جہنم کا شرارا مجھ کو
دیکھتے ہی تجھے اٹھتے ہیں شرارے دل میں
آتشِ غیظ بھڑک اٹھتی ہےسارے دل میں

ہم نہ کہتے تھے کہ ہم کو نہ ستاؤ دیکھو
نہ رلاؤ، نہ رلاؤ، نہ رلاؤدیکھو
رنج پر رنج نہ دو،ہوش میں آؤدیکھو
اب ذرا شرم سے آنکھیں نہ جھکاؤ دیکھو
نہ کرو تم یہ ستم کیوں نہ کہا تھا ہم نے
کیا غلط کہتے ہیں ہم کیوں نہ کہا تھا ہم نے

تم ستم کو بھی مگر مہرووفاسمجھے تھے
قہر کو لطف وکرم سے بھی سوا سمجھے تھے
قابلِ جوروسزاوارجفا سمجھے تھے
متحیر ہوں کہ آخرمجھے کیا سمجھے تھے
کوئی تقصیر بھی،کیوں ظلم کیئے تھے تم نے
کیا خطا تھی مری ،کیوں رنج دئیے تھے تم نے

ہٹ گیا جی مجھے  تم سے وہ محبت نہ رہی
اب ملے گا نہ کبھی دل کہ وہ رغبت نہ رہی
جو نکلنے کی تھی مشتاق وہ حسرت نہ رہی
جس سے ہو شکل صفائی کی وہ صورت نہ رہی
ہوچکی گرد الم دورمرے سینے سے
بال آکر کہیں جاتابھی ہے آئینے سے

تم جوہوماہ جبیں ،مہرلقا پھرمجھے کیا
تم کو آتے ہیں جو اندازواداپھر مجھے کیا
تم حسینوں میں جو ہوسب سے جداپھر مجھے کیا
تم جو ہو حسن میں حوروں سے سواپھر مجھے کیا
کچھ بھی ہو تم مگراب مجھ کو سروکار نہیں
کھوٹے داموں بھی بکو تم تو خریدار نہیں

تم کرو جو روستم،میں تمہیں چاہوں،کیا خوب
تم ستاؤمجھے،میں تم کو سراہوں کیا خوب
بے سبب زخمی شمشیرجفا ہوں،کیا خوب
اورپھریہ بھی کہ میں تم سے نباہوں کیا خوب
واہ اس رسم کی کیا بات ہے سبحان اللہ
یہ نئی طرزِملاقات ہے۔۔۔ سبحان اللہ

تم یہ کہتے ہو ہمارانہیں ہمسرکوئی
باغ عالم میں نہیں ایسا گل ترکوئی
میں یہ کہتا ہوں اسے مان لےکیونکرکوئی
کہ یہ ظاہرہے سمجھتا ہے اسے ہرکوئی
ایک پرختم کہاں خوبی ورعنائی ہے
جس کو یکتائی کا دعوٰی ہووہ سودائی ہے

تم کو دعوٰ ی ہے کہ دنیا میں ہمیں اچھے ہیں
اوراچھے بھی جو ہیں ہم سے نہیں اچھے ہیں
میں یہ کہتا ہوں بہت ماہ جبیں اچھے ہیں
تم توکیا تم سے بھی اچھے ہیں، کہیں اچھے ہیں
دل سلامت ہوتو موجودہیں دلدار بہت
چاہئیے مال زمانے میں خریدار بہت

تم یہ کہتے ہو کہ بے مثل ہوں،یکتا ہوں میں
آج میرا کوئی ثانی نہیں ایسا ہوں میں
خوب سن رکھوبڑی دورکی کہتا ہوں میں
تم سے بڑھ کر ابھی ممکن ہے اگرچاہوں میں
ایک سے ایک سواماہ لقاملتا ہے
یہ تو انسان ہیں ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے

خلق میں لالہ رخ وغنچہ دہن بہترے
نرگسیں چشم بہت،رشک چمن بہترے
جن کا پھولوں سے بھی نازک ہے بدن بہترے
سیب سے بڑھ کرجورکھتے ہیں ذقن بہترے
راست قدصورت شمشادوصنوبرلاکھوں
جستجوشرط ہے، لاکھوں ہیں گل ترلاکھوں

تم جو آؤ گے تو رخ اپنا اُدھرکرلیں گے
منھ نہ دیکھیں گے کبھی نیچی نظر کرلیں گے
اب علاجِ مرضِ دردِ جگر کرلیں گے
اس کے معنی یہ ہیں ہم بھی کہیں گھرکرلیں گے
ہرپری زادکوہم پیش نظررکھتے ہیں
گوضرورت نہ ہو پرواز کے پر رکھتے ہیں

دل میں ٹھانی ہے کہ اب میں بھی ستاؤں تم کو
منھ لگاؤں نہ محبت سے بٹھاؤں تم کو
آتش رشک سے سیماب بناؤں تم کو
حورفردوس کی تصویر دکھاؤں تم کو
ہو وہ معشوق اگر سامنااُس کا ہوجائے
دیکھنے والا بھی حیرت کا تماشا ہوجائے

ایسا معشوق جو ہو ماہوش ومہر ولقا
ایسا معشوق نہ نکلے کوئی ہمسرجس کا
ایسا معشوق جو دیکھے وہ کہے صلّ علیٰ
ایسا معشوق جو ہو نازوادا میں یکتا
جس کی تصویر بھی کہتی ہو کہ اللہ رے میں
ہرادا سے یہ جھلکتا ہوارےواہ رے میں

مہررخسار وہ معشوق، وہ مہوش معشوق
وہ پری زادوہ پرکالۂ آتش معشوق
رشک برق جبل طوروہ دلکش معشوق
کتنے عشاق اُسے دیکھ کے ہوں غش،معشوق
دلبرے،حورقدرے،غنچہ دہانے عجبے
خوش قدرے،گل بدنے،سروروانے عجبے

وہ طرحدار،وہ آرامِ دل وراحتِ جاں
وہ قمر چہرہ وہ زہّاد کا دبن وایماں
جلوہ آرا ہو اگر پیشِ حسینانِ جہاں
سب کے سب بول اٹھیں کیا شانِ خداہے قربان
چشم جادو،لبِ نازک قدرعناواری
آنچہ خوباں ہم دارند تو تنہا داری

برق رخساروقمر طلعت وگوہر دنداں
کم سخن،سیم تن ولعل لب وسحر بیان
حشر رفتاروکماں ابرووشمشیر زباں
بول اٹھے دیکھ کے اس کو جو کوئی حور جناں
واہ کیا آن ہے،کیا شان ہے اللہ اللہ
حسن کی جان یہ انسان ہے اللہ اللہ

نیک خو،نیک سیر،نیک شیم،نیک شعار
مہروش،مہرلقا،مہرادا،مہرفگار
صادق وصادق الاقراروصداقت آثار
خوش دل وخوش نظروخوش روش وخوش گفتار
نازواندازمیں بے مثل ادا میں یکتا
لطف وجودوکرم ومہروفا میں یکتا

حسن کا اس کے یہ عالم ہے کہ عالم قرباں
چارسودھوم ہے اُس کی وہ ہےیکتائے زماں
نام اُس کا جو سنے پیر ہو یا کوئی جواں
بول اٹھے کھینچ کے بے ساختہ اک آہ کہ ہاں
داردآں آفتِ جاں حسن وجمالے عجبے
چشم مستے عجبے داردوخالے عجبے

گل رخ وگل بدن وسروغنچہ دہاں
عشوہ گر،شوخ نظر،عشرت دل،راحتِ جاں
جانِ خوبانِ جہاں،غیرتِ حورانِ جناں
جس سے شرمندہ پری ،حورخجل وہ انساں
گھرکرے چشم فلک میں قدزیبااُس کا
دنگ ہو دیکھ کے رضواں بھی سراپا اُس کا

اُس کے گیسوئے سیہ تاب نظر آئیں اگر
پھر نہ چھوٹے کبھی تو دامِ بلامیں پھنس کر
مطلع مہراُس کی وہ جبینِ انور
رشک سے کس کے ترے دل کوملے داغِ قمر
سامنے آئیں جو اُس شوخ کے خمدار ابرو
تجھ کو سر بھی نہ اٹھانے دیں کریں وارابرو

روبروہوکےوہ ہرچندکرے چار آنکھیں
توملائے نہ مگر شرم سے زنہار آنکھیں
تجھ کو بیمار کریں اُس کی وہ بیمار آنکھیں
صدمۂ رشک سے ہردم رہیں خونبار آنکھیں
دل کو بے چین کریں اُ س کی ستمگرپلکیں
کھٹکیں آنکھوں میں تری صورتِ نشتر پلکیں

اُس کو مسرور کروں اورستاؤں تجھ کو
گدگداؤں اسے اتنا کہ رلاؤں تجھ کو
حسرت ورنج کی تصویر دکھاؤں تجھ کو
اُس کو پہلو میں ،بہت دوربٹھاؤں تجھ کو
منھ تکے دورسے بیٹھاہوا میرا اُس کا
پاس آنے دے تجھے رعب نہ اصلا اُس کا

میری باتوں سے وہ دیوانہ ہو مجھ پرشیدا
بہ سروچشم اسے منظورہو کہنا میرا
ناروا بھی جو کہوں میں اسے سمجھے وہ روا
ہو مخالف نہ کسی حال میں وہ ماہ لقا
بات نکلے جو مرے منھ سے وہی بات کہے
دن کہوں دن وہ کہے،رات کہوں رات کہے

مجھ کو خواہش ہو اسی کی تری پروانہ رہے
دل اسی شمع دل افروز کا پروانہ رہے
تجھ سے نفرت ہو،اُس شوخ سے یارانہ رہے
توسہی،تجھ کو پھرضبط کا یارانہ رہے
اُٹھ کے آجائے مگر پاس بٹھاؤں نہ تجھے
گرپڑے پاؤں پر آکر تواٹھاؤں نہ تجھے

وہ مرے سامنے ہنس ہنس کے رلائے تجھ کو
خوب حیران کرے،خوب ستائے تجھ کو
اس طرح حسن کا اندازدکھائے تجھ کو
کوئی تدبیر نہ اُس وقت بن آئے تجھ کو
اُس کی شوخی سخن بند کرے دم تیرا
شکل تصویر زمانے میں ہو ۔۔۔عالم تیرا

تو بھی دل تھام کے رہ جائے کرے ناز ایسا
حیرت آجائے دکھائے تجھے انداز ایسا
تجھ کو دیوانہ کرے ہو وہ فسوں ساز ایسا
خوبرویوں میں نظر آئے نہ طناز ایسا
تواسے دیکھ کے بیتاب نہ ہو کیا ممکن
دل ترا پھرترے قابو میں رہے ناممکن

بیٹھنے کی وہ مرےپاس نہ جادے تجھ کو
اوراگر بیٹھ بھی جائے تو اٹھا دے تجھ کو
جوربے جا کا نتیجہ وہ دکھادے تجھ کو
الغرض خوب تغافل کی سزادے تجھ کو
بات پھر تیری یہ بگڑے کہ بنائے نہ بنے
منھ چھپائے نہ بنے شکل دکھائے نہ بنے

اک تومغموم تھا پہلے ہی سے وہ گل رخسار
میری گفتار سے باقی نہ رہی تاب وقرار
میری باتوں سے کچھ ایسا ہوا وہ زارونزار
ہچکیاں لگ گئیں یہ حال ہواآخرکار
خلشِ خار غم رشک سے دل تنگ ہوا
صورت برگ خزاں چہرہ گل دنگ ہوا


اس طرح مجھ سے وہ کہنے لگے پھر روروکر
آہ خوش ہوتے ہو تم دیکھ کے ہم کو مضطر
دفعۃً پھر گئی ہم وہ محبت کی نظر
کیوں نہ آئے ہمیں رہ رہ کے تعجب اس پر
یاتووہ پیارتھایا اب ہے یہ اکراہ کی شان
گرگئے ایسے نگاہوں سے ہم اللہ کی شان

اتنا غصہ نہ ذرا کیجئے تقصیر ہوئی
عفوللہ خطا کیجئے تقصیر ہوئی
درگذربہر خداکیجئے  تقصیر ہوئی
خود ہی شرمندہ ہیں کیا کیجئے تقصیر ہوئی
اس میں شک نہیں بے شبہ خطاوار ہیں ہم
جوسزادیجئے اب اس کے سزاوار ہیں ہم

اس قدر حال پریشاں جو پایا میں نے
پونچھ کر شک انہیں چھاتی سے لگایا میں نے
اپنے پہلو میں تسلی سے بیٹھایا میں نے
پھر یہ راز اُن کو محبت سے جتایا میں نے
کہدیا تھا یونہی میں نے کہ خفا ہوں تم سے
غیر ممکن ہے کہ اک لحظہ جدا ہوں تم سے

مجھ کو باقی نہ رہےچاہ یہ ممکن ہی نہیں
میں محبت نہ کروں آہ یہ ممکن ہی نہیں
بھول جاؤں تجھے میں واہ یہ ممکن ہی نہیں
میں ملوں غیر سے واللہ یہ ممکن ہی نہیں
حوربھی ہو تو کبھی اُس سے محبت نہ کروں
تیرے کوچے کے سوا خواہش جنت نہ کروں

بخدا تم سے ابھی تک مجھے رغبت ہے وہی
حالتِ دل ہے وہی،طرزِ طبیعت ہے وہی
اُنس کی شکل وہی،پیار کی صورت ہے وہی
عشق والفت ہے وہی ،مہر ومحبت ہے وہی
وہی مشتاق، وہی چاہنے والا میں ہوں
وہی دلدادہ و وارفتہ وشیدا میں ہوں

قصہ کوتاہ کو کچھ دیر انہیں سمجھایا
میں جو کہتا تھا وہ اُن کو بھی باور آیا
مثلِ سابق جو مجھے گرم محبت پایا
عجب اندوہ بھرے لہجےمیں یہ فرمایا
غیر کے عشق کا اقرارہمارے آگے
اللہ اللہ یہ گفتار ہمارے آگے

کیوں نہ ہو خیر سےاب ہے نئی دنیا دیکھی
پھر یہ طرہ ہے کہ اک صورت زیبا دیکھی
اب تو ان کو بھی ہوا لگ گئی دیکھا دیکھی
ہم نے دیکھی نگۂ چشم تمنا دیکھی
ہم کو الفت ہے مگر تم کو ہے نفرت کیا خوب
اسی منھ پرتمھیں تھا دعوٰی الفت کیا خوب

خیر چاہے وہ تمہیں ،تم اسے چاہو ہم کون
تم کرو پیار اسے تم پر وہ فداہو ہم کون
وہ نباہے تمہیں،تم اُس کو نباہو ہم کون
دونوں جانب سے ادا رسم وفاہو ہم کون
تم کو اس سے ہواُسے تم سے محبت ہمیں کیا
خوب آپس میں بڑھے لطف وعنایت ہمیں کیا

غیر کو آپ کریں پیارخدا کی قدرت
ہم سے اس درجہ ہوں بےزارخدا کی قدرت
پھر ہمیں الٹے گنہگار خدا کی قدرت
اُدھراقرار،اِدھر انکارخدا کی قدرت
اب تو ہم پر نظر رحم ہی فرمائیے آپ
نازبیجا کسی مزدور سےاٹھوائیے گا

اب گلے سے اُسی کافر کو لگاؤ صاحب
اوراُسی کو یہ کرشمے بھی دکھاؤ صاحب
ہم کو یہ فکر نہیں ہوش میں آؤ صاحب
اب کسی اور کو بھی بیچ میں لاؤ صاحب
اب کسی اور سےبھی نامۂ وپیغام کرو
 اب کسی اورکوبھی مفت میں بدنام کرو

اب تمہیں ہم سے وہ الفت نہیں،اچھا نہ سہی
صاف اگر دل کی کدورت نہیں، اچھا نہ سہی
نظر لطف وعنایات نہیں، اچھا نہ سہی
وہ مروت ،وہ طبیعت نہیں، اچھا نہ سہی
تم اسے چھوڑ کے کیوں ہم سے ملو کیا حاصل
واقعی ہےیہ ملاقات عبث لا حاصل

طول اس ذکر کوکس واسطے دو،جانےدو
ہم سےبے فائدہ بحثیں نہ کرو،جانے دو
تم کو ملنا نہیں منظورہے تو جانے دو
نہیں رکھنی ہے اگر رسم چلو جانے دو
سچ تو یہ ہے تم ہمیں کیوں پیار کرو کیا مطلب
کس لئیے چاہ کا اقرار کرو کیا   مطلب

مل گیا ہے تمہیں ،معشوق نیا اورکوئی
رکھتے ہو پیشِ نظر ماہ لقا اورکوئی
گلبدن،غنچہ دہن،نازک ادااورکوئی
ہم ہیں کیا ۔ہم سے بھی سودرجہ سوا اور کوئی
سب حسینوں سے طریقے ہی جدا ہیں جس کے
نازواندازغضب ہوشربا ہیں جس کے

صادق القول ہے وہ صادق الاقرارہے وہ
نیک کردار ،طرحدار،خوش اطوار ہے وہ
سحرگرفتار ہے وہ،آئینہ ِ رخسار ہے وہ
اورسب پر ہے یہ طرہ کہ وفادار ہے وہ
اس زمانے میں کہاں ایسے حسیں ہوتے ہیں
جھوٹ کہتا ہوں تو کہدو کہ نہیں ہوتے ہیں

یہ تو سب راست،کوئی شک نہیں اس میں زنہار
فی الحقیقت تمہیں ایسا ہی ملا ہے دلدار
لیکن اتنا تو بتادوہمیں تم آخرکار
ہم سے کس منھ سے محبت کا کیا تھااقرار
واہ جی واہ یہی تھی تمہیں رغبت ہم سے
تھی یہی چاہ تمہیں،تھی یہی الفت ہم سے

کس لیئے ہو گئے خاموش،بتاؤ تو سہی
کچھ خموشی کا سبب ہم کو بتاؤ تو سہی
سراٹھاؤتو سہی،آنکھ ملاؤ تو سہی
ہم یہ سننے کے ہیں مشتاق سناؤ تو سہی
کیا تمہیں کہتے تھے ہم جان فدا کرتے ہیں
کیا تمہارا یہی دعوٰی تھا کہ ہم مرتے ہیں

جاؤ بھی ہم نے دکھانے کی محبت دیکھی
رنج دینے کی ،ستانے کی محبت دیکھی
جھوٹ سچ بات بنانے کی محبت دیکھی
ایک تم کیا ہو زمانے کی محبت دیکھی
دوست ہم نے تو کسی کو نہ کسی کا دیکھا
جس کو دیکھا اُسے مطلب ہی کا شیدا دیکھا

اُس کا شکوہ جو ہو اختم تو میں نے یہ کہا
خفگی اتنی ہے بے فائدہ،غصہ بے جا
آزمائش ہی مجھے مدنظرتھی بخدا
ورنہ انسان توانسان ہے اے ماہ لقا
ہوپری بھی  تونہ پہلومیں بٹھاؤں واللہ
حور بھی آئے تو میں منھ نہ لگاؤں واللہ

غیر اور اوراُس کی مجھے چاہ عیاذًاباللہ
تم سے،تم سے مجھے اکراہ عیاذًابا للہ
اورمعشوق ہو دلخواہ عیاذًاباللہ
کس طرف دھیان ہے اے ماہ عیاذًاباللہ
میں ملوں اورکسی ماہ جبیں سے توبہ
مجھ کو الفت ہو کسی اورحسیں سے توبہ

چھیڑنا مدنظرتھا مجھے اے غیرتِ ماہ
ورنہ میں اورسواتیرے کسی ورکی چاہ
ان حسینوں کی طرف اوراٹھے میری نگاہ
توبہ ،لاحول ولا قوۃ الا باللہ
حورپرآنکھ نہ ڈالے کبھی شیداتیرا
سب سے بیگانہ ہے اے دوست شناسا تیرا

سن چکا جب مری باتیں وہ بت گل رخسار
بول اٹھا کہ بجا ہے یہ تمہاری گفتار
اب کسی بات میں مجھ کونہ رہا شک زنہار
اک دوبارکا کیا ہے میں یہ کہہ دوں سوبار
واقعی تم ساطلب گار نہیں دنیا میں
ایسا با وضع نہ نکلے گا کہیں دنیا میں

ہاں مروت اسے کہتے ہیں محبت یہ ہے
جس سے دل ملتا ہے وہ انس وہ الفت یہ ہے
واقعی عشق یہ ہے،حسنِ طبیعت یہ ہے
تم ہزاروں میں ہوبے مثل حقیقت یہ ہے
جو رسہہ سہہ کے بھی کی تم نے وفا کیا کہنا
واہ واصل علیٰ صل علیٰ ۔۔۔کیا کہنا

ہم بھی لو اب نہ جدا ہوں گے قسم کھاتے ہیں
بھول کربھی نہ خفاہوں گے قسم کھاتے ہیں
  دمبدم لطف سوا ہوں گے قسم کھاتے ہیں
پچھلے وعدے بھی وفا ہوں گے قسم کھاتے ہیں
اب ہٹیں گے رہِ الفت سے نہ زنہارقدم
اوراگر شک ہو تو مسجد بھی ہے دوچار قدم

نئے سرسے ہوئے آپس میں غرض قول وقسم
اُن کا دل صاف ہوا،دورہواہم سے الم
اب کوئی رنج و قلق ہے۔نہ کوئی صدمۂ وغم
پھرمزے کرتے ہیں پھررہتے ہیں مسروربہم
پھر میسر ہے ہمیں لطفِ ملاقات وہی
پھر وہی رسم ہے پھر حرف وشکایات وہی

اب کسی بات میں کرتے نہیں جھگڑا ہم سے
اب نہ ہم کو ہے نہ اُن کو کوئی شکوہ ہم سے
بڑھ کے ہوگاکوئی قسمت کا دھنی کیا ہم سے
شادومسرورہیں لطف وکرم باہم ہم سے
شکرصدشکرکہ پھرعیش کے آئے یہ دن
پھرخداونددوعالم نے دکھائے یہ دن

مثل سابق ہوئی پھراُن کی عنایت مجھ پر
کرلیا عہد کہ ہوں گا نہ خفاباردگر
میری راحت ہے بہرحال انہیں مدنظر
اُن کے آرام کی ہے فکرمجھے شام وسحر
آج کل خوب ہے چمکی ہوئی قسمت میری
پیار ہے اُن سے مجھے،اُن کو محبت میری

شکرصد شکرکہ شاداں دل رنجور ہوا
بشکر صدشکردوری کا الم دور ہوا
شکرصدشکرکہ میل اُس سے بدستورہوا
شکرصدشکرکہ تابع بتِ مغرور ہوا
شکرصدشکرتمنائے دلی برآئی
شکرصدشکرشب وصل مرے گھر آئی

شکرصدشکرکہ خرم ہوئی جان ناشاد
دلِ بیتاب ہوا قید الم سے آزاد
سینکڑوں رنج والم سہہ کے ملی دل کی مراد
سچ ہے مختاریہ ارشادجناب استاد
پاک دامن ہوتوارمانِ وصال اچھا ہے
اچھی نیت ہو تو اچھوں کا خیال اچھا ہے

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں