صفحات

منگل، 31 جنوری، 2017

411۔ جب اس نے رخ سے نقاب الٹا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ605

411۔ جب اس نے رخ سے نقاب الٹا


جب اس نے رخ سے نقاب الٹا
تو رک گیا آفتاب الٹا

جب آسماں نے نقاب الٹا
زمیں ہوئی لاجواب الٹا

وہ خلطِ مبحث ہوا قفس میں
سوال الٹا، جواب الٹا

جو گھر سے نکلا تھا ٹوکنے کو
وہ ہو گیا ہم رکاب الٹا

تھا اپنی کثرت پہ ناز ان کو
میں ہو گیا بے حساب الٹا

سوال تم نے کیا تھا مضطرؔ
وہ ہو گئے لاجواب الٹا

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


پیر، 30 جنوری، 2017

412۔ کچھ تو کرم فرماؤ ناں

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ606

412۔ کچھ تو کرم فرماؤ ناں


کچھ تو کرم فرماؤ ناں
اتنا یاد نہ آؤ ناں

اپنے چاہنے والوں سے
اتنا بھی شرماؤ ناں

فرصت ہو تو چپکے سے
سپنے میں آ جاؤ ناں

جا بھی رہے ہو چپکے سے
کہتے ہو گھبراؤ ناں

ہم بھی آتے جاتے ہیں
تم بھی آؤ جاؤ ناں

عشق اگر دھوکا ہے میاں
یہ دھوکا بھی کھاؤ ناں

ہجر کی رُت میں رو رو کر
کندھاں کوٹھے ڈھاؤ ناں

شور مچا ہے مقتل میں
تم بھی شور مچاؤ ناں

ناحق اپنی کثرت پر
اتنا بھی اتراؤ ناں

اذنِ عام ہے کہتے ہیں
مضطرؔ تم بھی جاؤ ناں

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


اتوار، 29 جنوری، 2017

413۔ اے شورِ طلب اے آخرِ شب اے دیدۂ نم اے ابرِ کرم

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ607

413۔ اے شورِ طلب اے آخرِ شب اے دیدۂ نم اے ابرِ کرم


اے شورِ طلب اے آخرِ شب اے دیدۂ نم اے ابرِ کرم
خاموش کہ کچھ کہنا ہے گناہ ہشیار کہ چپ رہنا ہے ستم

اے حسن مہک، اے عشق بہک، اے شدتِ غم کے جام چھلک
اے چشمِ تحیرّ گل کو نہ تک، بیدار نہ ہو جائے شبنم

رستے کی تھکن سے چور بدن مجبور وطن سے دور بدن
تو چاہے تو تھم اے تیز قدم جو نہ چاہے تو چل تیار ہیں ہم

گو برقِ تبسّم کوند چکی پر طُورِ تحیّر قائم ہے
اے حسن! گرا چلمن کو ذرا کہیں دیکھ نہ لے کوئی نامحرم

گلشن میں ہے اک کہرام مچا، موسم بھی ہے سہما سہما سا
دامن کو بچا اے بادِ صبا، کانٹے ہیں خفا اَور گل برہم

اے شمعِ ازل چل دیدہ و دل کی محفل میں پھر رقص کریں
پروانے جنوں سے بے گانے، یونہی بھول گئے سُر، تال، قدم

مے خانہ ترا آباد رہے، آزاد رہے، دلشاد رہے
دو گھونٹ پلا دے مضطرؔ کو، تجھے تیرے ہی جُود و عطا کی قسم

دسمبر1947

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


ہفتہ، 28 جنوری، 2017

414۔ دلِ ناداں ابھی زندہ بہت ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ608

414۔ دلِ ناداں ابھی زندہ بہت ہے


دلِ ناداں ابھی زندہ بہت ہے
اسے امیّد آئندہ بہت ہے

بہت وعدے کئے ہیں اس نے، لیکن
یہ جیسا بھی ہے شرمندہ بہت ہے

خدا محفوظ رکھے اس کے شر سے
یہ مارِ آستیں زندہ بہت ہے

بہار آئی ہوئی ہے آنسوؤں کی
شبِ فرقت درخشندہ بہت ہے

نہیں ہے زلزلوں کی اس کو پروا
فصیلِ شہر پائندہ بہت ہے

اگر میدان سے بھاگا تو اب کے
ابوسفیان کو ہندہ بہت ہے

تری تائید شامل ہو تو مالک
فقط تیرا نمائندہ بہت ہے

نظر آتا نہیں اندھوں کو مضطرؔ
اگرچہ چاند تابندہ بہت ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


جمعہ، 27 جنوری، 2017

415۔ رقصِ شیطاں ہوا تھا پہلے بھی

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ609

415۔ رقصِ شیطاں ہوا تھا پہلے بھی


رقصِ شیطاں ہوا تھا پہلے بھی
آسماں پر خدا تھا پہلے بھی

میں اسے جانتا تھا پہلے بھی
وہ مِرا آشنا تھا پہلے بھی

تم نے احساں کیا تھا پہلے بھی
میرا گھر جل گیا تھا پہلے بھی

اس کے تیور ہیں اب کے اور ہی کچھ
وہ اگرچہ خفا تھا پہلے بھی

مجھ سے اب بھی انہیں شکایت ہے
مجھ کو ان سے گلہ تھا پہلے بھی

اب کے اس کی ہنسی ہے اور ہی کچھ
پھول یوں تو ہنسا تھا پہلے بھی

ہم فقیروں کو، ہم اسیروں کو
اُس نے اپنا لیا تھا پہلے بھی

اب لہو میں نہا کے نکلا ہے
اشک یوں تو گرا تھا پہلے بھی

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


جمعرات، 26 جنوری، 2017

416۔ محروم ہو نہ جاؤ کہیں اس ثواب سے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ610

416۔ محروم ہو نہ جاؤ کہیں اس ثواب سے


محروم ہو نہ جاؤ کہیں اس ثواب سے
قسمت میں ہے تو جا کے ملو آفتاب سے

سب لوگ مضطرب ہیں اسی اضطراب سے
گزرے گی کیسے اب اگر جا گے نہ خواب سے

جب بھی ہلے ہیں ہونٹ وہ نازک گلاب سے
کانٹے بھی جیسے ہو گئے ہوں لاجواب سے

دل کو یقینِ تازہ ملا ان کو دیکھ کر
میں بال بال بچ گیا یوم الحساب سے

یہ نور آسمان سے اترا نہ ہو کہیں
بڑھ کر چمک رہا ہے مہ و آفتاب سے

زندہ ہے حسن آج بھی اللہ کی قسم!
آواز آ رہی ہے مسلسل کتاب سے

نور و ظہورِ قدرتِ ثانی! خدا گواہ
بگڑی سنور گئی ہے ترے انتخاب سے

''آخر کنند دعوٰئِ حُبِّ پیمبرم''
مالک اِنہیں نجات دے اب اس عذاب سے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


بدھ، 25 جنوری، 2017

417۔ اجنبی آشنا نہ ہو جائے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ611

417۔ اجنبی آشنا نہ ہو جائے


اجنبی آشنا نہ ہو جائے
پھر کوئی حادثہ نہ ہو جائے

پھول کا رنگ اڑ نہ جائے کہیں
اور خوشبو رِہا نہ ہو جائے

مجھ کو ڈر ہے کہ فرطِ لذّت سے
پیڑ غم کا ہرا نہ ہو جائے

دیکھتی آنکھوں برسرِ دربار
پھر کوئی معجزہ نہ ہو جائے

شبِ فرقت ہو تیری عمر دراز
کہیں تو بھی جدا نہ ہو جائے

باخبر، باملاحظہ، ہشیار
گم کہیں نقشِ پا نہ ہو جائے

بے یقینوں کو آ نہ جائے یقیں
درد پھر لادوا نہ ہو جائے

دل ہی اک یارِ غار ہے اپنا
کہیں یہ بھی خفا نہ ہو جائے

اکثریت کے زعم میں مضطرؔ
کہیں بندہ خدا نہ ہو جائے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


منگل، 24 جنوری، 2017

418۔ ہم نے مانا بہت بڑے بھی ہو

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ612

418۔ ہم نے مانا بہت بڑے بھی ہو


ہم نے مانا بہت بڑے بھی ہو
آئینوں سے کبھی لڑے بھی ہو؟

موت کا کر رہے ہو صاف انکار
موت کے سامنے کھڑے بھی ہو!

کبھی چھوٹوں میں ہو بہت چھوٹے
اور بڑوں میں بہت بڑے بھی ہو!

سچ بتاؤ کے چاہتے کیا ہو؟
چل رہے بھی ہو اور کھڑے بھی ہو!

عجب اضداد کا ہو مجموعہ
یعنی چھوٹے بھی ہو بڑے بھی ہو!

شاملِ حال ہو کبھی سب کے
کبھی سب سے الگ کھڑے بھی ہو!

خود ہی عاشق ہو اَور خود معشوق
خود ہی سولی پہ جا چڑھے بھی ہو

چل رہے ہو ازل سے اپنی طرف
اور ازل سے یہیں کھڑے بھی ہو

سب سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہو
آئینے سے کبھی لڑے بھی ہو؟

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


پیر، 23 جنوری، 2017

419۔ آہٹوں کا ریلا ہے

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ613

419۔ آہٹوں کا ریلا ہے


آہٹوں کا ریلا ہے
راہ رَو اکیلا ہے

خاک و خوں ہے خیمے ہیں
کربلا کا میلا ہے

تن کی جھوٹ گاڑی کو
جھوٹ نے دھکیلا ہے

وہ بھی ایک جھوٹا تھا
یہ بھی اس کا چیلا ہے

اس ہجوم کے اندر
آدمی اکیلا ہے

ہر خوشی کو چکّھا ہے
ہر ستم کو جھیلا ہے

ہم نے کھیل فرقت کا
مسکرا کے کھیلا ہے

اٹھ اذان دے مضطرؔ
جاگ فجر ویلا ہے

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی