صفحات

منگل، 3 جنوری، 2017

5۔ قصیدہ۔ اللہ اللہ جوشِ تاثیرِ ہوائے قادیاں

کلامِ مختار ؔ

قصیدہ۔ اللہ اللہ جوشِ تاثیرِ ہوائے قادیاں


(حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ معرکۃالآراء قصیدہ ہدیہ ء قارئین کیا جاتاہے جو آپ ؓ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت جوبلی کے موقع پر تحریر فرمایا تھا۔علم وادب کے شاہکار اس قصیدہ کا ایک ایک لفظ حق وصداقت پرمبنی ہے۔      الفضل انٹرنیشنل 13جنوری 2006)

اللہ اللہ جوشِ تاثیرِ ہوائے قادیاں
گونجتی ہے سارے عالَم میں صدائے قادیاں

کیا طرب انگیز ہے موجِ ہوائے قادیاں
بن گیا لطفِ مجسّم ہر فدائے قادیاں

جذب ہوجاتی ہیں نظریں حسنِ منظر دیکھ کر
دامنِ دل کھینچتی ہے ہر ادائے قادیاں

جیتے جی نظارہ ءجنت اگر مطلوب ہو
چاہئے سیرِ بہار دل کشائے قادیاں

کیا غضب ڈھایا جو مَیں نے اس کو جنت کہہ دیا
دیکھ لیں اہلِ نظر شانِ ادائے قادیاں

یہ چمن بندی ، یہ جوشِ لالہ ؤ گُل ،یہ بہار
یہ پھلا پھولا گلستان، یہ فضائے قادیاں

یہ طراوت ،یہ نفاست، یہ لطافت ،یہ نمو
یہ ادا ، یہ شان ، یہ رنگِ ہوائے قادیاں

اَور ہی عالَم ہے باغِ قادیاں میں آج کل
اَور ہی عالَم میں ہے باغِ وفائے قادیاں

وجد میں آتے ہیں رہ رہ کرجوانانِ چمن
جھومتی پھرتی ہے بادِ جاں فزائے قادیاں

لَو حش اللہ غنچہائے ناشگفتہ کی مہک
اَور اُس پر جنبشِ موجِ فضائے قادیاں

کھِل گئے غنچے نقابِ خندہ ء گُل اُٹھ گئی
اُف رے اندازِ نسیم دل کشائے قادیاں

شاہدِ گُل نے اُلٹ دی ہنس کے چہرہ سے نقاب
جانے کیا کہتی ہوئی گزری ہوائے قادیاں

کہدیاکیاجانے کیا بُلبل نے جھک کرکان میں
خندہ  ء گُل سے مہک اُٹھی فضائے قادیاں

دیکھ کرحسنِ جمالِ شاہدِ طنّازِگُل
وجد کرتی ہے بہارِ جاں فزائے قادیاں

طائرانِ خوش نوا ہیں شاخِ گُل پر نغمہ زن
گونجتی ہے لحنِ دل کش سے فضائے قادیاں

نغمہ ءبلبل میں ہے رنگینی ء گُل کی بہار
وائے رے جوشِ نموئے جانفزائے قادیاں

خندہ ء گُل اک طرف ہے لحنِ بلبل اک طرف
رنگ پرہے بوستانِ دل کشائے قادیاں

کیوں نہ ہوجائے نظر محوِ طلسم ِ بے خودی
یہ کشش ، یہ جذب ، یہ حُسنِ فضائے قادیاں

آتشِ گُل ہائے رنگیں سے دہکتا ہے چمن
خوب آنکھیں سینک لیں اہل وفائے قادیاں

ہے یہ ارشاد جناب مولوی عبدالرحیم1
اور مختار اور صہبائے ثنائے قادیاں

اللہ اللہ یہ بہارِدلکشا ئے قادیاں
گھر کئے لیتی ہیں آنکھوں میں فضائے قادیاں

غیرسے کیا پوچھنا ہے وہ تواب تک غیرہے
مجھ سے سُن اے میرے دانا ماجرائے قادیاں

رنگ لائی ہے مری طبعِ رواں مدّت کے بعد
جوش پر ہے بحرِ موّاجِ ثنائے قادیاں

ہرصفت بے مثل، ہرانداز اس کا لاجواب
دل نشین و دل رُبا ایک ایک ادائے قادیاں

کس جگہ ہے؟ خدمت ِ اسلام کا یہ ذوق شوق
کس جگہ ہے؟ اب یہ اندازے فضائے قادیاں

کس جگہ ہے؟ یہ نظامِ درسِ قرآن وحدیث
کس جگہ ہے؟ یہ نوائے جاں فزائے قادیاں

کس جگہ ہے؟ آج یہ بحرِ معانی موج زن
کس جگہ ؟ لٹتے ہیں دُرِّ بے بہا ئے قادیاں

کس جگہ ہیں؟ یہ حقائق ،یہ معارف ،یہ نکات
کس جگہ ہیں؟ یہ فیوض دل کشائے قادیاں

کس جگہ؟ رخشاں ہے ایسا آفتاب معرفت
کس جگہ ہے؟ یہ ضیائے ذرّہ ہائے قادیاں

کس جگہ ہے؟ یہ لحاظِ شرعِ ختم الانبیاء
کس جگہ ہے؟ یہ ادائے اَتقیائے قادیاں

کس جگہ ہے؟ امرِ حق پریوں سرتسلیمِ خم
کس جگہ ہے؟ یہ خُدا خواہی سوائے قادیاں

کس جگہ ہے؟ آج یہ پابندیء آئین و دین
کس جگہ ہے؟ یہ خلوص و اَتقائے قادیاں

کس جگہ ہے؟ یہ خیال ِ خدمت ِ دینِ متیں
کس جگہ ہے؟ یہ طریقِ حق نمائے قادیاں

کس جگہ ہے؟ روزوشب تبلیغ کا زوروشور
کس جگہ ہے؟ اب یہ رنگ ِ جذبہائے قادیاں

کس جگہ؟ سامان ہیں یہ غلبہ ء اسلام کے
کس جگہ ؟ عزم راسخ ہے سوائے قادیاں

شاد ہوتی ہیں طبائع مست ہو جاتے ہیں دل
وجد میں لاتی ہے روحوں کوصدائے قادیاں

سر بکف پھرتے ہیں عالَم میں پئے تبلیغ حق
دست وپا والو! یہ ہیں دست و پائے قادیاں

ڈال دی جس پر نگاہ ِ مست ،بے خود کر دیا
مرحبا اے بادہ ء نوشانِ ولائے قادیاں

ما ل کیاہے چیز زادِ دین میں کیا تو قیرِ مال؟
جان کی پرواہ نہیں کرتے فدائے قادیاں

بارش بارانِ سنگ و خشت کی پرواہ کسے
جانے کس دُھن میں ہیں شیدا ؤ فدائے قادیاں

جان دے دی مُنہ مگر پھیرا نہ راہ ِعشق سے
زندہ باد اے سرفروشانِ رضائے قادیاں

قصّہ ء دار و رسن افسانہ ء پارینہ ہے
دیکھئے رنگِ شہیدانِ وفائے قادیاں

گوش بر آواز ہیں محمود عرفانی2 ابھی
اور اے مُختار حال ارتقائے قادیاں

محو حیرت بن گیا پیشِ فضائے قادیاں
مَیں کہ ہوں دیرینہ شیدا ؤ فدائے قادیاں

ہے عجب رونق در و دیوار و سقف و بام پر
صاف مثل آئینہ ہیں کوچہ ہائے قادیاں

آج لہریں لے رہا ہے ہرطرف عُمّانِ نور
تیرتے پھرتے ہیں اربابِ صفائے قادیاں

اس قدر آرائش و پیرائش اللہ غنی
یہ عروسِ آراستہ ہے یا فضائے قادیاں
واہ کیا کہناہے جذبِ حُسن و احسان واہ واہ
دل کھچے آتے ہیں سُوئے دل رُبائے قادیاں

منزلِ دل بن گئی کاشانہ ء عیش و نشاط
ہورہے ہیں باغ باغ اہلِ وفائے قادیاں

اے تری قدرت یہ عالم جلوہ گاہِ ناز کا
سر بکف ہیں صف بہ صف اہل ولائے قادیاں

ا ِس سرے سے اُس سرے تک ہے عجب جوش وخروش
ہرطرف ہے موجزن بحرِوفائے قادیاں

دلولے یہ اٹھ رہے ہیں رنگ محفل دیکھ کر
چاہئے کچھ خاطرِ اہل صفائے قادیاں

اک غزل بھی اب وہ پڑھ دوں جس کو سن کروجد آئے
شاد ہوں ہر شعر پر اہلِ ذکائے قادیاں

دھوم ہو صَلِّ عَلٰی، صَلِّ عَلٰی کی دھوم ہو
چرخ سے ٹکرائے شورِ مرحبائے قادیاں

صورت گُل ہوں شگفتہ اکملؔ3 وصادق4ؔ کے دل
شور أَحْسَنْتَ سے گونج اٹھے سمائے قادیاں

لِلّٰہِ الْحَمْد ،آج ہیں محوِ ادائے قادیاں
وہ نگاہیں تھیں جو مشتاقِ لقائے قادیاں

اس جبینِ ناز سے کرنے لگی کسبِ ضیاء
کس طرح نازاں نہ ہو صبح صفائے قادیاں

کس سے ہیں سرگوشیاں ؟ اس زلفِ عنبر بیزسے
کیوں نہ اِترائے نسیمِ جاں فزائے قادیاں

وسعت فرصت میسر ہو تو موجیں دیکھئے
دل نہیں ،سینے میں ہے بحرِ ثنائے قادیاں

گُل سے باہرہوکے بھی رہتی ہے جیسے گُل میں بُو
یوں بسی ہے غنچہ ءدل میں فضائے قادیاں

حضرتِ واعظ بڑے دانا مگرمشکل یہ ہے
آپ ہیں ناآشنا ، مَیں آشنائے قادیاں

اے کہ جنت کی حقیقت پوچھتاہے مجھ سے پوچھ
مَیں نے لُوٹی ہے بہارِ جاں فزائے قادیاں

دورِ اوّل میں ہی دل مستانہء حق بن گیا
اے جَزَاکَ اللّٰہ صہبائے و لائے قادیاں

اے نگاہ ِ عاقبت بیں آفریں صد آفریں
ابتدا سے دیکھتا ہوں انتہائے قادیاں

خلد کوجاتی ہے ،اے واعظ !انہیں میں ہوکے راہ
کیوں نہیں پھرتجھ کوعشقِ کوچہائے قادیاں

بس کھِلا ہی چاہتاہے غنچہء نخلِ مراد
اورہلکی سی کوئی موج اے صہبائے قادیاں

اب تو صرف اتنے ہی کی محتاج ہے کشتِ اُ مّید
ایک چھینٹا اور اے ابرِ سخائے قادیاں

لحنِ داؤدی کا لطفِ جاں فزا معلوم ہے
بارہا مَیں نے سُنے ہیں نغمہ ہائے قادیاں

رکھ چکاہوں دل میں ،پڑھ پڑھ کر نکاتِ احمدی
مَیں نے نظروں سے چنے ہیں میوہ ہائے قادیاں

خوب نکلی ساقی  ء کوثر سے ملنے کی سبیل
لگ گئی ہے منہ سے صہبائے وفائے قادیاں

محتسب کہتے ہیں کس کو؟ اور کیسا احتساب
میرے ساقی اورصہبائے ولائے قادیاں

مَیں بھی دریانوش ہوں پیارے جودریا دل ہے تُو
خم کے خم دے بادہ ءفرحت فزائے قادیاں

حضرت ِواعظ سے کہنا ہے سرِمحشر مجھے
میرے حضرت ایسے ہوتے ہیں فدائے قادیاں

کرلئے ہیں کوثر و تسنیم پرقائم حقوق
پی چکا ہوں بادہ ءنابِ وفائے قادیاں

موج میں آ آ کے اے مختاؔر یہ کہتے ہیں موج5
اَور اک موج اور اے بحرِ ثنائے قادیاں

حضرت گوہر6 کو بھی مختار ہے اور اشتیاق
پھر چہک اے عندلیب خوش نوائے قادیاں

میری نظروں سے کوئی دیکھے ادائے قادیاں
مجھ سے پوچھے کوئی مجھ سے ماجرائے قادیاں

ڈھونڈتی ہے میری نظروں کو بہارِ خلد بھی
واہ رے نظارہ ء حسنِ فضائے قادیاں

کر گئی بے خود کسی کی اک نگاہِ کیف ریز
بے پئے ہی جھک گئے اہل وفائے قادیاں

حضرتِ واعظ اِدھر محو لغاتِ نو بنو
اور اِدھر مَیں مستِ صہبائے ثنائے قادیاں

کیوں نہ ہوموجِ تبسّم میرے ہونٹوں پر نثار
گدگداتا ہے مجھے شوق ثنائے قادیاں

کیوں نہ آ جائے ہنسی واعظ کی قیل وقال پر
دیکھتا ہوں رنگ و اندازِ ہوائے قادیاں

اب کہاں وہ چاندمیں بڑھیا کا چرخا کاتنا
دور تک جانے لگے ہیں نغمہائے قادیاں

کب تک انبارِ خس و خاشاکِ اقوال الرجال
اور ہی کچھ کہہ رہی ہے اب ہوائے قادیاں

دَورِ موجودہ ہے دَورِ حکم قرآن و حدیث
اب یہی آثار ہیں زیر سمائے قادیاں

ظلمتِ تکفیر کے اڑتے ہیں رہ ر ہ کردھوئیں
پھیلتی جاتی ہے عالَم میں ضیائے قادیاں

بس یہ ہے واعظ کے طومارِ ملامت کا جواب
دیکھ اے ظالم ذرا سُوئے سمائے قادیاں

یہ خوارق ، یہ نشانِ صدق ، یہ تائیدِ ربّ
اور یہ انکارِ شانِ مقتدائے قادیاں

مست ادب7 ، سرمست مظہر8، روح بسمل9 وجد میں
کیوں نہ ہو مختار ہے محوِ ثنائے قادیاں

پھرچلا خامہ قصیدے کی طرف غزلوں کے بعد
کروٹیں لیتا ہے دریائے ثنائے قادیاں

مژدہ باد اے اہل تسلیم و رضائے قادیاں
اب ہُوا نظارہ ءرونق فزائے قادیاں

تشنہ کامانِ محبت کوئی دم کی بات ہے
اب چلا دورِ مئے لطف و عطائے قادیاں

ساقی ءدریا دل آیا چاہتا ہے سوئے بزم
اب چَھکے بادہ گساران ولائے قادیاں

اے طلب گاران حسن جانفراء بُشْرٰی لَکُمْ
اب ہوا رونق فزا ماہ ہدائے قادیاں

وہ صدائے ساز دل پھیلی وہ عالم گونج اٹھا
وہ ہُوئے گرمِ ترنم خوش نوائے قادیاں

وہ پھٹی لَو ، وہ ہوا تڑکا ، وہ نکلا آفتاب
وہ اٹھا پردہ ، وہ آیا دل ربائے قادیاں

دیکھ لی شانِ جنابِ حق تعالیٰ شانہ
اور ہی کچھ بن گئے ارض وسمائے قادیاں

یہ عروج اللہ اکبر ، یہ صفائے قادیاں
برق کو دھوکہ ہے ''مَیں ہوں یا ضیائے قادیاں''

عرش سے تا فرش پھیلاہے یہ نورِ دل فروز
یا گلے ملتے ہیں آج ارض وسمائے قادیاں

یہ زمینِ قادیاں ہے یا سپہرِ پُرضیاء
چودھویں کا چاند ہے یا دل ربائے قادیاں

شاہد گِردوں نے اُلٹی ہے نقابِ زرنگار
یا ہے نور افشاں رُخِ یوسف لقائے قادیاں

آسمانِ حُسن پر یہ کوندتی ہے برق طور
یا تبسم ہے نثار خوش ادائے قادیاں

پھررہی ہے ساری نظروں میں وہ چشمِ نیم باز
دَورمیں ہے جام صہبائے ولائے قادیاں

لُٹ رہی ہے دولتِ حُسن وجمالِ دل نواز
گرم ہے ہنگامہ ء لطف و عطائے قادیاں

بحرِ دل میں اُٹھ رہی ہیں پیہم امواجِ سرور
بن گئے جوشِ مجسّم آشنائے قادیاں

مثلِ گُل فرطِ مسرّت نے شگفتہ کردیا
محوِ شکرِ حق ہیں اربابِ صفائے قادیاں

لِلّٰہِ الْحَمْد اے فدایانِ ادائے قادیاں
پھر نظر افروز ہے حسنِ فضائے قادیان

پھر وہی منظر ہے فردوسِ نگاہِ حق شناس
شُکْرلِلّٰہ رنگ لائی پھر دعائے قادیاں

پھرانہیں افضال کا مورد بنا روئے زمیں
پھر وہی عالَم ہوا زیرِ سمائے قادیاں

پھر وہی بحرِ زمرد ہر طرف ہے موجزن
پھر وہی لعل و گہر زیبِ فضائے قادیاں

پھر وہی صحن چمن ہے پھروہی فصل بہار
پھر وہی جوشِ نموئے غنچہائے قادیاں

پھر مہک اٹھی فضائے بوستانِ آرزو
پھر ہوئی عنبر فشاں موجِ ہوائے قادیاں

پھر وہی لطفِ سامانِ نشاط و انبساط
پھر وہی انداز جشنِ دل کشائے قادیاں

پھر وہی گُل ریزیاں ہیں پھر وہی کیف و سرور
پھر وہی نغمے وہی لطفِ نوائے قادیاں

پھر وہی جوش طرب ہے پھر وہی شوقِ طلب
پھر وہی انداز حسنِ جاں فزائے قادیاں

پھر وہی گُل ہے ، وہی بُلبل، وہی راز و نیاز
پھر وہی کیفِ بہارِ دل کشائے قادیاں

پھر وہی محفل ، وہی ساقی،وہی مستِ الست
پھر وہی دَور مئے فرحت فزائے قادیاں

گونج اٹھی ہے فضا شور مبارک باد سے
جارہے ہیں عرش تک یہ نعرہائے قادیاں

بَارَکَ اللّٰہ آ گیا فرماں روائے قادیاں
بَارَکَ اللّٰہ آگیا راحت فزائے قادیاں

آ گیا نجم الہدیٰ ، شمس الضحیٰ ، بدرالدجیٰ
آ گیا نورِ رخِ صبح و مسائے قادیاں

آ گیا وہ جس کی آمد کے لئے بیتاب تھے
باوفائے قادیاں صبر آزمائے قادیاں

ناز ہے مختار اس بختِ رسا پر نازہے
مل گیا وقتِ سلامِ رہنمائے قادیاں

اَلسّلام اے زینتِ حُسن و ضیائے قادیاں
اَلسّلام اے رونقِ شانِ صفائے قادیاں

اَلسّلام اے گوہرِ دُرجِ صفا و اصطفاء
اَلسّلام اے جوہرِ کانِ وفائے قادیاں

اَلسّلام اے ماہ تابانِ کمالات ، اَلسّلام
اَلسّلام اے مہرِ رخشانِ ہدائے قادیاں

اَلسّلام اے نخلِ بندِ باغِ اسلام ، السّلام
اَلسّلام اے رہنما و پیشوائے قادیاں

اَلسّلام اے عاشقِ دینِ محمد مصطفی ؐ
اَلسّلام اے جانشین مقتدائے قادیاں

اَلسّلام اے نورِ عینِ مہدی ء دین ، اَلسّلام
اَلسّلام اے یادگارِ میرزائے قادیاں

اَلسّلام اے سید و مولا ئے مختار السّلام
اَلسّلام اے سرور ہر باوفائے قادیاں

مدح حاضر میں اب ایسا مطلع روشن پڑھوں
نور ہو لفظوں میں معنی میں ضیائے قادیاں

توُ ہوا رخشاں جو اے مِہرِ ہدائے قادیاں
شرق سے تا غرب جا پہنچی ضیائے قادیاں

اے امیر المومنین! اے ہادی ء دینِ متین!
اے رئیس المتقین ! اے پیشوائے قادیاں !

اے دُرِّ تابندہ ء دریائے عرفان و یقین!
اے گُلِ رعنائے باغِ اتقائے قادیاں!

اے حقیقت آشنا و حق شناس و حق نما!
اے سبق آموزِ تسلیم و رضائے قادیاں!

اے اولو العزم ،اے بشیرالدین ،اے فضل عمر!
میرزا محمود احمد رہنمائے قادیاں!

مصدرِ لطف و کرم ، سرچشمہ ء علم و حِکَم
منبعِ فیضِ اتم ، کانِ صفائے قادیاں!

رہنمائے گم رہاں ،آرامِ جانِ طالباں
مرہمِ دل خستگاں ، راحت فزائے قادیاں

مخزنِ رازِ شریعت ، مہبطِ انوارِ حق
معدنِ رمزِ طریقت ، رہنمائے قادیاں

عالم رازِ نہاں ، تاج سرِ دانشوراں
پیشوائے عارفاں ، شاہ ہدائے قادیاں

بزم آرائے ہدیٰ ،سرخیلِ اربابِ صفاء
تاج دارِ اتّقا ، فرما ں روائے قادیاں

موجب آرائشِ باغ محمد مصطفےٰؐ
نخلِ بندِ گُلشنِ مہرِ وفائے قادیاں

مسند آرائے سریرِ سنّتِ ختم الرسلؐ
رونق افزائے رخِ صدق و صفائے قادیاں

مظہرِ شانِ جناب حق تعالیٰ شانہ
سید الآفاق ، خورشید ہدائے قادیاں

تجھ کوخالق نے بنایا اپنے فضل و رحم سے
حُسن و احساں میں نظیر میرزائے قادیاں

ہر تنِ بے جان میں تُو نے پھونک دی روحِ حیات
ازسرِ نو جی اُٹھے اہلِ وفائے قادیاں

تیرے فیضِ روح افزا سے تصاویر گِلی
بن گئی ہیں طائرانِ خوش نوائے قادیاں

یہ اُمنگیں ، یہ ترنگیں ، یہ وفورِ ذوق و شوق
یہ ہجومِ عاشقانِ باوفا ئے قادیاں

آج تو ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں ان کا مزاج
کتنے اونچے اڑ رہے ہیں یہ ہمائے قادیاں

کاروبارِ صادقاں ہرگز نہ ماند ناتمام
دیکھ لیں ناآشنا و آشنائے قادیاں

دھوم ہے آفاق پر تیری اولوالعزمی کی دھوم
تو نے پہنچا دی ہے عالم میں صدائے قادیاں

فتح نے تیرے قدم چومے ہیں ہرمیدان میں
تیرے ہاتھوں سے ہوا اونچا لوائے قادیاں

دنگ ہیں انسان تیرے کارنامے دیکھ کر
تو نے پیدا کی عجب عظمت برائے قادیاں

خوب ہی اونچا کیا دنیا میں نام اسلام کا
واہ اے ابن المسیح اے رہنمائے قادیاں

شکل و ماہِ نیم ماہ و مثل مہر نیم روز
رات دن پھیلا رہا ہے تو ضیائے قادیاں

سراٹھایا جس نے تیرے آگے اوندھے منہ گِرا
کوئی بیرونی ہو یا وہ ناسزائے قادیاں

سر کئے ہیں تُو نے ایسے ایسے مشکل معرکے
دنگ ہیں ناآشنا کیا آشنائے قادیاں

تیرے منہ سے لفظ جو نکلا وہ پورا ہوگیا
خواہ اعدا کے لئے ہو یا برائے قادیاں

کیسی اس کے پاؤں کے نیچے سے نکلی ہے زمیں
جس نے کی ترچھی نظر سوئے سمائے قادیاں

تیرے آگے جو پہاڑ آیا دھواں بن کر اڑا
جہل کی ظلمت مٹی پھیلی ضیائے قادیاں

گرپڑے وہ منہ کے بَل تیرے سہام اللیل سے
بد ارادے سے جو اُٹھے تھے برائے قادیاں

کون ہے تیرے سوا ا ے میرے آقا کون ہے
موجب اظہارِ شانِ ارتقائے قادیاں

کس کوحاصل ہے یہ عظمت ، یہ تقدس ، یہ وقار
کس میں ہے شانِ کمالِ پیشوائے قادیاں

کس کو یارا ئے تکلم کس کوتابِ دم زدن
جب گُل افشاں ہو لبِ معجز نمائے قادیاں

لاَ فَتٰی اِلَّا عَلِی لَا سَیْف اِلَّا ذُوالْفِقَار
نیست امامِ وقت لیکن رہنمائے قادیاں

ماہِ برجِ فضل و لطف و حُسن احسانِ اتم
آفتابِ مطلعِ صدق و صفائے قادیاں

ہرطرف جاری ہیں تیری ذات عالی کے فیوض
توُ ہے عین جود و دریائے سخائے قادیاں

تیری صورت تک رہے ہیں تشنہ کامانِ فراق
ایک جامِ بادہ ءِ مہروولائے قادیاں

تُو ہی ہے ملجا و ماوائے من و مولائے سخن
عدل پرور دادگر شاہ ہدائے قادیاں

اور مَیں اک جوہریِّ دُرِّ تابانِ سخن
سر بسر محتاج انوارِ سمائے قادیان

بہر نذرِ شاہِ دیں کیا پیش کرسکتا تھا آج
ایک دل از دستِ دادہ اک گدائے قادیاں

اس لئے لایا ہوں یہ سلکِ درِ شہوار نظم
جوہے قدرے مظہرِ حسنِ ضیائے قادیاں

قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری
اِک نگاہِ لطفا اے فرماں روائے قادیاں

ختم تک پہنچا قصیدہ اب دعا کا وقت ہے
ہاں ذرا آمین اے اہل وفائے قادیاں

اے خدا بہرِ محمد مصطفی ختم الرسلؐ
جن کے نور ِفیض سے ہے یہ ضیائے قادیاں

میرے آقا کو عطا فرما اقبال و وقار
جس کے خواہاں تھے جناب مقتدائے قادیاں

مدتوں تک تو سلامت باکرامت رکھ اسے
مدتوں تک رہنما ہو رہ نمائے قادیاں

ہو مبارک اس کویہ پچیس سالہ جوبلی
اور ان سب کو بھی جوہیں باوفائے قادیاں

1۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ؓ سابق مبلغ انگلستان و امام مسجد لندن۔
2۔مکرم محمود احمد صاحب عرفانی ،مدیر الحکم۔
3۔ حضرت قاضی ظہورالدین صاحب اکملؓ۔
4۔حضرت سید صادق حسین صاحب اٹاوی۔
5۔ خادم المسیح حضرت سید مہدی حسین صاحب موج ؓ۔
6۔ حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ۔
7۔ مکرم حاجی عبدالقدیر صاحب ادب شاہجہانپوری۔
8۔ حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہرؓ۔
9۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب بسملؓ۔

          (الفضل انٹرنیشنل 13جنوری 2006)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں