صفحات

ہفتہ، 19 دسمبر، 2015

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

سینہ خوں سے بھرا ہوا میرا
اُف یہ بد مست مے کدہ میرا

نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نا رسا میرا

عشق کو منہ دکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اڑ گیا میرا

دلِ غم دیدہ پر خدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا

یاد کے تند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جل اٹھا میرا

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

منّتِ چرخ سے بری ہوں میں
نہ ہوا جیتے جی بھلا میرا

ہے بڑا شغل زندگی اخترؔ
پوچھتے کیا ہو مشغلہ میرا

اختر انصاری ؔ

چوہدری محمدعلی مضطرؔعارفی

پروفیسر چوہدری محمدعلی مضطرؔعارفی

آپ1917ء کو ضلع فیروز پور (مشرقی) پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہورسے ایم۔ اے کیا۔ چھوٹی عمر میں احمدیت سے تعارف ہوا۔ زمانہ طالبعلمی میں حضرت مولوی ظہور حسین صاحب بخارا کے اسلام کے دفاع میں ایک پنڈت سے کیے گئے   مناظرے سے آپ پر احمدیت کا اچھا اثر پڑا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران محترم قاضی محمد اسلم صاحب جو وہاں پروفیسر تھے صدر شعبہ فلاسفی بھی تھے ان کی شخصیت اور اوصاف حمیدہ اور دعوت الی اللہ کی وجہ سے 1941ء میں نوجوانی میں احمدیت کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ آپ نے 9اپریل 1944ء کو وقف زندگی کی درخواست دی ۔اسی سال جب قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا قیام ہوا تو آپ کو اس موقر تعلیمی ادارے کے بانی اساتذہ میں شامل ہونے کی سعادت ملی اور کالج میں فلسفہ، نفسیات اور انگریزی زبان و ادب کے پروفیسر رہے۔ بعد میں اسی کالج کے پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوئے۔

آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے پرائیویٹ سیکرٹری رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی طرح آپ حضور کے غیرممالک کے سفروں میں بھی ساتھ رہے۔ 1984ء میں آپ کا تقرر جامعہ احمدیہ میں بطور انگریزی کے پروفیسر کے ہوا جہاں آپ نے شعبہ انگریزی کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح اس دوران میں بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ  کی کتب کے تراجم کی سعادت بھی آپ کو ملی۔ جب شعبہ وقف نو وکالت وقف نو کا قیام ہوا تو چوہدری محمد علی صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہلا وکیل وقف نو مقرر فرمایا پھر 1998ء میں تراجم کے کام کی وسعت کے پیش نظر آپ کو وکیل التصنیف مقرر فرمایا گیا۔ آخر دم تک آپ اس خدمت پر مامور رہے۔ آپ نے سلسلے کی بہت سی کتب کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی توفیق پائی۔ اسی طرح آپ کو تقریباً 71سال سلسلے کی خدمات کی توفیق ملی۔

آپ ایک طویل عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی کی Senate اکیڈیمک کونسل اور بورڈ آف سٹڈیز (نفسیات) کے ممبر رہے۔ کالج میں ہوسٹل کے علاوہ تیراکی، کشتی رانی، کوہ پیمائی، باسکٹ بال، یو۔ٹی۔ سی اور آئی۔اے۔ٹی۔سی کے شعبوں کے انچارج اور پاکستان کی قومی باسکٹ بال کے سینئر وائس پریذیڈنٹ رہے۔بڑے محنتی منتظم ، ہمدرد استاد اورمشفق نگران تھے ۔خلافت کے سچے مطیع اور فرمانبردار تھے۔ نظام جماعت کے ساتھ اخلاص ووفا کا تعلق رکھنے والے بزرگ تھے۔ ریاء کاری سے پاک، نرم خو، نرم زبان،انسانیت کے ہمدرد اور نیک انسان تھے۔

13اگست2015 کو بھی آپ دفتر تشریف لائے اور تمام وقت دفتری امور کی انجام دہی کے بعد گھر گئے، جہاں ان کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور 13اور 14اگست 2015ء کی درمیانی شب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے ، جنت الفردوس میں اعلیٰ علیین میں جگہ عطا کرے اور ان جیسے مخلص اور فدائی جماعت کو ہمیشہ عطا کرتا چلا جائے۔ آمین

آپ اردو ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ اردو اور پنجابی زبان کے بلند پایہ قادر الکلام شاعر تھے۔آپ کا کلام جماعت اور ملک کے ادبی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔آپ نے زیادہ شاعری اردو زبان میں کی اور آپ کا واحد مجموعہ کلام اشکوں کے چراغ ہے۔اس ویب سائیٹ پر آپ کا کلام اسی کتاب کی ترتیب کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے۔

جمعرات، 17 دسمبر، 2015

رئیس امروہی ۔ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم دہلی مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اے تاج محل نقش بدیوار ہو غم سے
اے قلعہ شاہی ! یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاک اودھ !فائیدہ کیا شرح ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

سایہ ہو اردو کے جنازے پہ ولی کا
ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

بدذوق احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ہیں مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم
کہہ دوکہ انیس اس کا لکھیں مرثیہ غم
جنت سے دبیر آ کے پڑھیں نوحہ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سر سیداعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اردو کےجنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے


منظر بھوپالی ؔ - ان کو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں

ان کو آنسو بھی جو مل جائیں تو مسکاتی ہیں
بٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں

اپنی خدمت سے اُتر جاتی ہیں دل میں سب کے
ہر نئی نسل کو تہذیب یہ سکھلاتی ہیں

ان سے قائم ہے تقدس بھی ہمارے گھر کا
صبح کو اپنی نمازوں سے یہ مہکاتی ہیں

لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن
بٹیاں اپنی برے وقت میں کام آتی ہیں

بٹیاں ہوتی ہیں پُرنور چراغوں کی طرح
روشنی کرتی ہیں جس گھر میں چلی جاتی ہیں

اپنی سسرال کا ہر زخم چھپا لیتی ہیں
سامنے ماں کے جب آتی ہیں تو مسکاتی ہیں

بٹیوں کی ہے زمانے میں انوکھی خوشبو
یہ وہ کلیاں ہیں جو صحرا کو بھی مہکاتی ہیں

ایک بیٹی ہو تو کھل اُٹھتا ہے گھر کا آنگن
گھر وہی ہوتا ہے پر رونقیں بڑھ جاتی ہیں

فاطمہ زہرا کی تعظیم کو اُٹھتے تھے رسول
محترم بٹیاں اس واسطے کہلاتی ہیں

اپنے بابا کے کلیجے سے لپٹ کر منظر
زندگی جینے کا احساس دلا جاتی ہیں

اقبال اشعر ؔ - اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی

اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہم راز ہوں غالب کی سہیلی

دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی

غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالی نے مروت کا سبق یاد دلایا
اقبال نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
مومن نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی

ہے ذوق کی عظمت کہ دیے مجھ کو سہارے
چک بست کی الفت نے میرے خواب سنوارے
فانی نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے
اکبر نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی